Wednesday, 6 November 2024

غافل ہوں تری یاد سے ایسا تو نہیں ہے

 غافل ہوں تِری یاد سے ایسا تو نہیں ہے

ہر وقت مِرے دل میں تِری یاد مکیں ہے

دنیائے محبت بڑی دل کش ہے حسیں ہے

ہر ایک کو راس آئے ضروری تو نہیں ہے

مانا کہ زمانے کا ہر اک نقش حسیں ہے

اس پر بھی زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے

اک عرضِ تمنا کے سوا ہم نے کیا کیا

کس بات پہ وہ شعلہ بدن چیں بہ جبیں ہے

کیا خاک ہو میرے دلِ بے تاب کا درماں

جب تجھ پہ تِری چشمِ توجہ ہی نہیں ہے

دل میں ہے مگر جذبۂ اخلاص و محبت

وہ خود ہی کھنچے آئیں گے یہ میرا یقیں ہے

کیا کہیے محبت میں عجب حال ہے اپنا

نظریں ہیں کہیں اور تو دل اور کہیں ہے

رہ رہ کے کھٹکتا ہے جو ہر سانس میں پیہم

سینے میں کوئی خار ہے یا قلبِ حزیں ہے

اقرارِ وفا کر بھی چکیں تیری نگاہیں

افسوس تِرے لب پہ مگر پھر بھی نہیں ہے

اس بت کا کوئی عہد بھی ایفا نہیں ہوتا

کیا اس کا یقیں جس کا نہ ایماں ہے نہ دیں ہے

کیا طرفہ قیامت ہے مِری وجہِ تباہی

وہ پوچھتے ہیں اور مجھے یاد نہیں ہے

شرمندۂ احساں میں نہیں راہنما کا

عاصی مِرا رہبر تو مِرا عزم و یقیں ہے


پنڈت ودیا رتن عاصی

No comments:

Post a Comment