مجھے تو اب بھی کئی رنجشوں کا خطرہ ہے
وہ میرے پاس ہے لیکن خفا سا رہتا ہے
اس ایک جرم کی کب تک سزا میں کاٹوں گا
یہی کہا تھا کہ؛ موسم کا حال کیسا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ میں سورج ہی مانتا ہوں تمہیں
مگر یہ کیا کہ بہت دور تک اندھیرا ہے
قریب جس کے نہ پہنچا ہو احتساب کا ہاتھ
ہر ایک شخص وہی دوستو! فرشتہ ہے
میں کربلا ہوں فقط ریگ ہی نہیں مجھ میں
مِرے وجود میں اب بھی فرات بہتا ہے
وہ اپنے جسم کے اندر ہی دفن ہے شاہد
یہ اور بات کہ اس کا وجود زندہ ہے
شاہد واسطی
No comments:
Post a Comment