Monday, 4 November 2024

مجھے تو اب بھی کئی رنجشوں کا خطرہ ہے

 مجھے تو اب بھی کئی رنجشوں کا خطرہ ہے

وہ میرے پاس ہے لیکن خفا سا رہتا ہے

اس ایک جرم کی کب تک سزا میں کاٹوں گا

یہی کہا تھا کہ؛ موسم کا حال کیسا ہے

یہ ٹھیک ہے کہ میں سورج ہی مانتا ہوں تمہیں

مگر یہ کیا کہ بہت دور تک اندھیرا ہے

قریب جس کے نہ پہنچا ہو احتساب کا ہاتھ

ہر ایک شخص وہی دوستو! فرشتہ ہے

میں کربلا ہوں فقط ریگ ہی نہیں مجھ میں

مِرے وجود میں اب بھی فرات بہتا ہے

وہ اپنے جسم کے اندر ہی دفن ہے شاہد

یہ اور بات کہ اس کا وجود زندہ ہے


شاہد واسطی

No comments:

Post a Comment