Tuesday, 12 November 2024

کیا جوانی میں کھیل کھیلے ہیں

 زعفرانی کلام


کیا جوانی میں کھیل کھیلے ہیں

اب بڑھاتے میں ہم اکیلے ہیں

محفل گل رخاں میں رہتے تھے

ہم بھی کیسے جہاں میں رہتے تھے

ہائے کیسا بدل گیا منظر

آئینہ تھوکتا ہے اب منہ پر

دل تو کہتا ہے نوجوان ہیں ہم

آج بھی تیس مار خان ہیں ہم

اب کوئی کھالتا ہی نہیں 

بوڑھے بکرے کو پالتا ہی نہیں

سونے چاندی کے یہ بدن والے

ہیں عجب آفتوں کے پرکالے

کل تلک دم ہمارا بھرتے تھے

ہاں پہ جیتے تھے نہ پہ مرتے تھے

اب کے صورت بگڑ گئی اپنی

کیسی دوکان اجڑ گئی اپنی

اب چچا کہہ کے یہ بلاتے ہیں

سانپ سینے پہ لوٹ جاتے ہیں

ہو کے مایوس ان حسینوں سے

آ گئے ہم اتر کے زینوں سے

جب بڑھاتے کا احترام کیا

نوجوانی کا سوئچ آف کیا

بزم خوباں سے جب نکالے گئے

ڈورے پھر اس طرف کو ڈالے گئے


عادل لکھنوی

No comments:

Post a Comment