زعفرانی کلام
کیا جوانی میں کھیل کھیلے ہیں
اب بڑھاتے میں ہم اکیلے ہیں
محفل گل رخاں میں رہتے تھے
ہم بھی کیسے جہاں میں رہتے تھے
ہائے کیسا بدل گیا منظر
آئینہ تھوکتا ہے اب منہ پر
دل تو کہتا ہے نوجوان ہیں ہم
آج بھی تیس مار خان ہیں ہم
اب کوئی کھالتا ہی نہیں
بوڑھے بکرے کو پالتا ہی نہیں
سونے چاندی کے یہ بدن والے
ہیں عجب آفتوں کے پرکالے
کل تلک دم ہمارا بھرتے تھے
ہاں پہ جیتے تھے نہ پہ مرتے تھے
اب کے صورت بگڑ گئی اپنی
کیسی دوکان اجڑ گئی اپنی
اب چچا کہہ کے یہ بلاتے ہیں
سانپ سینے پہ لوٹ جاتے ہیں
ہو کے مایوس ان حسینوں سے
آ گئے ہم اتر کے زینوں سے
جب بڑھاتے کا احترام کیا
نوجوانی کا سوئچ آف کیا
بزم خوباں سے جب نکالے گئے
ڈورے پھر اس طرف کو ڈالے گئے
عادل لکھنوی
No comments:
Post a Comment