بے نام حسرتوں کی امیں
کچے گھروندوں میں
جوانی کا باورا سا خواب دیکھنے والی لڑکیاں
پکے گھروں میں
آوارہ شعور کے ساتھ مرگِ شادی مناتی
اِک شورِ آہ و بکا میں
مکافاتِ عمل سے گزرتی
بے نام حسرتوں کی امیں
کچے گھروندوں میں
جوانی کا باورا سا خواب دیکھنے والی لڑکیاں
پکے گھروں میں
آوارہ شعور کے ساتھ مرگِ شادی مناتی
اِک شورِ آہ و بکا میں
مکافاتِ عمل سے گزرتی
خود پرستی
خود پرست دنیا میں
اپنی ذات کی پوجا
عام بات ہوتی ہے
رات کے اندھیروں میں
جس طرح کوئی جگنو
خود کو راہبر جانے
زلزلوں کا جو جائزہ لیں گے
لوگ توبہ کا آسرا لیں گے
ہم بھی طوفاں سے حوصلہ لیں گے
عزم کا اپنے جائزہ لیں گے
مسکراتے رہیں گے محفل میں
اپنے ہر درد کو چھپا لیں گے
راستے سے گئے ہٹائے ہم
پھر بھی منزل کے پاس آئے ہم
تھے حقیقت نظر نہ آئے ہم
جب ہوئے خواب جگمگائے ہم
گو چلے تھے، پہنچ نہ پائے ہم
ہم وہیں ہیں جہاں سے آئے ہم
کہ پیسہ بولتا ہے؛ قوالی
سنسار میں باجے ڈھول
یہ دنیا میری طرح ہے گول
کہ پیسہ بولتا ہے
قارون نے مجھ کو پوجا تھا
فرعون بھی میرا شیدا تھا
شدّاد کی جنت مجھ سے بنی
آگہی کا عذاب جھیلا ہے
ہم نے جی ہاں جناب جھیلا ہے
نظم لکھتی ہوں دل کی خوشبو سے
ان کا دیکھا جوخواب جھیلا ہے
زندگی کی تلاش میں ہم نے
جو ہے لکھا نصاب جھیلا ہے
میرے رازداں میری بات سُن
یہ جو چار سُو ہیں اُداسیاں
یہ جو تِیرگی کا حِصار ہے
دلِ منتظر کی شکستگی
یہ جو خواہشوں کا غُبار ہے
میرے چارہ گر، میرے بے خبر
راہ راست
جو حق پر ہے ایمان کامل ہمارا
بنا لے گا کیا زور باطل ہمارا
جو ہم متحد ہو کے رہتے وطن میں
نہ تھا کوئی مد مقابل ہمارا
غلامی کی خو بو مسلط ہے ہم پر
دماغ اب ہمارا نہ اب دل ہمارا
کچھ آپ خواب گر ہیں تو ارمان بیچئے
نیکی کا ہے ارادہ تو احسان بیچئے
فرقے کے نام پر ہمیں کافر بنائیے
ایماں کے نام پر ہمیں یزدان بیچئے
کیجئے زمین ہم پہ ہماری ہی آپ تنگ
پنجاب، سندھ، خیبر و بولان بیچئے
روشنی کے علم
روشنی کے علم، روشنی کے نشاں
زندہ قوموں کے زندہ جواں
اپنی پلکوں پہ نیندیں سجاتے نہیں
اپنے ماتھے کی شمعیں بُجھاتے نہیں
توڑ دیتے ہیں زنجیرِ خوابِ گِراں
زندہ قوموں کے زندہ جواں
چاند تجھ سے مِری باتیں کوئی کرتا ہو گا
نام لے لے کے مِرا تجھ سے بہلتا ہو گا
دیکھتا ہو گا فلک پر جو ستاروں کا ملن
دل ہی دل میں مِرے قدموں سے لپٹتا ہو گا
آتش ہجر جو تن من کو جلاتی ہو گی
اک دُھواں سا در و دیوار سے اُٹھتا ہو گا
خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہوں میں
پانی پر تصویر بنا سکتا ہوں میں
وعدوں قسموں رسموں کی زنجیروں کو
تو جو بلائے توڑ کے آسکتا ہوں میں
تیشہء فرہاد ہے میرے پاس ابھی
راہ کے سب کہسار ہٹا سکتا ہوں میں
اس کو منزل میں جب دکھا آیا
خود کو رستہ میں تب بنا آیا
پاؤں چومے تھے جس گھڑی ماں کے
مجھ سے ملنے، مرا خدا آیا
یاں سے رستہ خدا کو جاتا ہے
سب سے پہلے میں کربلا آیا
لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا
سردی میں اکڑا اکڑا جیسے شجر رہا
میرے خزان میں نہ ہوئی کایا پلٹ کبھی
چند پھول مسکرائے مگر بے ثمر رہا
لوگوں سے بھاگتا ہوا قندیل کا دھواں
تکتا کسی کی یاد میں جو رہگزر رہا
مسلمانو تمہیں پھر دیں پہ چلنے کی ضرورت ہے
خدا کی راہ میں سب کو نکلنے کی ضرورت ہے
جو وقت آئے تو شعلوں میں بھی جلنے کی ضرورت ہے
رہِ حق میں تمہیں کانٹوں پہ چلنے کی ضرورت ہے
چلوں سینچیں گے ہم خونِ جگر سے گلشن دیں کو
اسے اب پھولنے کی اور پھلنے کی ضرورت ہے
یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش
یہ یزیدوں کے مقلد ہیں غلامی کے سفیر
یہ سوا لاکھ شہیدوں کے لہو کے تاجر
مرے کشمیر کے غدار ذلالت کے امام
یہ زمانوں سے منافق یہ جہالت کے امین
یہ جو راندہ گردوں ہیں یہی ننگ زمین
کج روی کو چھوڑ ہمدم
ڈُھونڈ غم کا توڑ ہمدم
اس سفر سے تھک چُکے ہم
لا حسِیں اب موڑ ہمدم
ہم جنہیں ہیں توڑ بیٹھے
سلسلے وہ جوڑ ہمدم
پھیل جاتی ہے کو بہ کو آواز
کس کی رکھتی ہے جستجو آواز
شبِ فرقت میں کون ہے ہمسر؟
کاش دیتا کوئی عدو آواز
رازِ عرفاں سے اٹھ گۓ پردے
کون دیتا ہے با وضو آواز
یہ سب میرے جنم دن کی خوشی میں ہے
یہ سب میری تمناؤں سے بڑھ کر ہے
کوئی ایسی بھی شے ہے جو
مجھ جیسے کم صفت کے ان تحائف میں
نہ شامل ہو
اگر کم ہے تو اک رومال کم ہے
دِیے کی نبض تو رُکنے لگی ہے
ہوا کے ساتھ بهی کافی ہوئی ہے
جرّی نے بزدلوں پر وار کر کے
بس اپنی تیغ کی توہین کی ہے
اندهیرا کر سکیں گے جس سے ہم لوگ
اب ایسی روشنی بهی آ گئی ہے
جب چراغوں پہ ہواؤں کے سِتم ٹُوٹ گئے
شب کو خورشید پہ جتنے تھے بھرم ٹوٹ گئے
ہم کو رکھنے کا سليقہ بھی نہیں تھا اس کو
اس قدر زور سے پٹکا ہے کہ ہم ٹوٹ گئے
آج اس دل میں دبے پاؤں تیری یاد آئی
سانس لیتے ہوئے کتنے ہی قدم ٹوٹ گئے
یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں
لگانا ہو تو پھر اچھی طرح لگاتے ہیں
دبا کے رکھا ہے گہری گھٹن میں تو نے اسے
ادھر تو آ، ترے دل کو ہوا لگاتے ہیں
وہ بات کرتے تھے میری وفا پرستی کی
مجھے لگا کہ وہ الزام سا لگاتے ہیں
کیکٹس کے جنگل میں
کیکٹس کے جنگل میں
شام ہو گئی مجھ کو
راستہ نہیں ملتا
ہر طرف اندھیرا ہے
اور میری تنہائی
کون مجھ کو ڈھونڈے گا
محبت جن سے کرتے ہیں
محبت جن سے کرتے ہیں
محبت جو بھی کرتے ہیں
سبھی انسان ہوتے ہیں
اگر انسان سے کوئی خطا ہو جائے تو اس کو
کٹہرے میں کھڑا کرتے نہیں ہیں
اس کی آنکھیں چوم کر تنبیہ کرتے ہیں
یہ کیا کہ زخم بھر گیا
رقیبِ جاں کدھر گیا
قدم یہ کون دھر گیا
چمن چمن نکھر گیا
سنا ہے قیس دشت میں
تڑپ تڑپ کے مر گیا
نہیں کچھ کام کا بیکار ہوں میں
غبار کوچہ و بازار ہوں میں
نظر سے دیکھ نہ نفرت کی مجھ کو
محبت! تیرا رشتہ دار ہوں میں
ابھی تنہائیاں ہیں پاس مِرے
ابھی محوِ تلاشِ یار ہوں میں
بے یقینی کے سفر پر
بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے
چار موسم مزاجوں میں آباد تھے
تھوڑی گرمی تھی جذبات کے روپ میں
ایک ٹھنڈک سی تھی ریشمی دھوپ میں
غم رسیدہ خزاں کچھ دنوں کے لیے
اور کچھ دن بہاروں کے موسم بھی تھے
شہر کو تیری جُستجُو ہے بہت
ان دنوں ہم پہ گُفتگو ہے بہت
جب سے پرواز کے شریک مِلے
گھر بنانے کی آرزو ہے بہت
درد رہ رہ کر سر اُٹھاتا ہے
کبھی کم ہو گیا، کبھو ہے بہت
اور
دھرتی کے محروم انسان
میر ے اپنے قصبے کے غریب
موچی، نائی، جُلاہا، دھوبی اور ترکھان، لوہار
یہ بچارے کسان
جن کی پوری نسلیں
زندگی اور گھرانے
مسجد قرطبہ
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بےشمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
اس کی زمہن بےحدود، اس کا فلک بےثغور
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل
کلاسیکی شاعری
سندھی شاعری سے اردو ترجمہ
دلبر کے در پر میں تو دیوانہ ہو رہا ہوں
یارو میں دو جہاں سے بیگانہ ہو رہا ہوں
یہ عقل فہم اس کے دیدار نے اڑایا
زلفوں کے پیچ و خم میں مستانہ ہو رہا ہوں
آئے گا جوں وہ دلبر تیروں کی ہو گی بارش
سینہ سپر ہے سچل نشانہ ہو رہا ہوں
جانِ جاناں نہ رہا، جان پہ بن آئی ہے
زندگی پیار کی ہم کو نہ ذرا بھائی ہے
خوفِ دوزخ سے نہ جنّت کی طلب میں سجدہ
میری بے لوث عبادت تِری شیدائی ہے
ٹُوٹ کر رہ گئی ہر شاخِ شجر آندھی میں
اب چمن میں یہ صبا کس کے لیے آئی ہے؟
ہر ایک شکل میں نکلی بس اک تری صورت
ہر ایک شکل کہ ٹھہری ہری بھری صورت
تری تلاش میں نکلے تو کیسی راس آئی
یہی حیات کہ کٹتی نہ تھی کسی صورت
تمہارا نام لیا تو چراغ جل اٹھے
سیاہ رات میں چلنے کی پھر بنی صورت
اب اپنی پہچان بنا کر چھوڑوں گا
میں خود کو انسان بنا کر چھوڑوں گا
اب کہ زور نہیں چلنے دینا اِس کا
عشق کو میں دربان بنا کر چھوڑوں گا
زہر کشید کروں گا تھوڑی سی تم سے
اور پھر اک حیوان بنا کر چھوڑوں گا
صحرا کو دیکھتا ہوں کبھی اپنے گھر کو میں
مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جاؤں کدھر کو میں
بدلے دل و نگاہ تو ہر شے بدل گئی
حیرت سے دیکھتا ہوں ترے بام و در کو میں
غیروں کا جام بھرتے ہو آنکھیں بچا کے کیوں
پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو میں
میری دھرتی کے گُل بُوٹے ترستے ہیں بہاروں کو
پرندے ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں جنت میں نظاروں کو
گِری ہیں بجلیاں ایسی، بھسم ہی ہو چلا گُلشن
جوانو! جاگ جاؤ تم، بُجھا دو ان شراروں کو
شجر ہیں بے ثمر اس کے نہیں کِھلتے یہ غُنچے بھی
بچاؤ ان بگولوں سے وطن کے لالہ زاروں کو
نظر نشانے پہ تھی تیر بھی کمان میں تھا
ہوا چلے گی اچانک، کہاں گمان میں تھا
مجھے بھی کرنا وہی تھا ، جو کر دیا اس نے
پہ ایک خوفِ خدا تھا جو درمیان میں تھا
زمیں کا بویا بھی کیا آسماں پہ کٹنا تھا
کیے دھرے کا نتیجہ اسی جہان میں تھا
ہم لوگ کتابوں والے
بے مول سے خوابوں والے
ہے الگ ہی ہماری دُنیا
ہیں لفظ ہی ہمارے، ساری دُنیا
جذبات جب اُدھم مچاتے ہیں
الفاظ کا مے خانہ ہم سجاتے ہیں
در سیرتِ ملوک (بادشاہوں کی عادات کا بیان)
چار خصلت اے برادر در جہاں
اے بھائی چار عادتیں دنیا میں
پادشاہاں را ہمی دارد زیاں
بادشاہوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں
پادشہ چوں برملا خنداں بود
بادشاہ مجمعِ عام میں ہنستا رہتا ہے
جنت
ٹہنیوں شاخوں والی جنت
پاس کھڑی شرمیلی حُوریں
چمکتی اور رنگیلی حُوریں
جنت میں تقسیم ہوئی ہیں
شیخ نے بولا ستر حوریں کافی کم ہیں
میں مسند پہ دور کہیں
شکستہ کشتی ہے لیکن اتر نہیں سکتا
میں اپنے عہد وفا سے مُکر نہیں سکتا
تُو اپنی چشمِ نوازش کو اور کھولتا جا
یہ میرا دل ہے مرے دوست بھر نہیں سکتا
کچھ اپنے ساتھ محبت، کچھ اپنے ساتھ وفا
میں چاہتا ہوں کروں، پھر بھی کر نہیں سکتا
تیری آواز کے تعاقب میں
میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں
گھپ اندھیری ہے زندگی میری
روشنی کا کوئی اشارہ نہیں
رہنمائی کو اب ستارہ نہیں
منزلوں کی تلاش، لاحاصل
اک سفر ہے کہ جو مسلسل ہے
غم زندگی ہے اور شام و سحر ہے
یہ رونا زندگی کا عمر بھر ہے
یہاں کچھ بھی نہیں جُز حسرت و یاس
یہ دل ہے یا کسی شاعر کا گھر ہے
اِدھر اک عالمِ شوقِ فراواں
اُدھر اُس کی نگاہِ بے خبر ہے
تم سا گر راہبر نہیں ہوتا
کوئی بھی راہ پر نہیں ہوتا
راستے بھی فریب دیتے ہیں
جب کوئی ہمسفر نہیں ہوتا
اس کی یادیں جو ہمسفر ہوتیں
تو سفر طول تر نہیں ہوتا
میں جس کے در گیا، وہی عالی مقام تھا
سب حاکموں کے شہر میں، میں ہی عوام تھا
کٹھ پُتلیوں کی طرح سے ہے اب نچا رہا
ظالم کبھی یہ وقت بھی اپنا غلام تھا
نِکلا جو داستاں سے تو اس پہ شباب تھا
آیا جو لوٹ کر ہوں تو قصہ تمام تھا
قصہ ایک دیوار کا
دوزخ کے باسیوں نے وہ دیوار توڑ دی
جو ان کے اور بہشت کے مابین تھی کھڑی
شعلے شجر سے لِپٹے، شرر بار ہو گئے
نازک مزاج جنتی بیمار ہو گئے
جُھلسے جو ان کے چہرے تو دیکھا اِدھر اُدھر
کوئی مطب نہیں تھا میسٗر، نہ ڈاکٹر
گلوبل وارمنگ (Global Warming)
گلی میں جو نکلا
تو گالوں پہ گرمی کے تھپڑ پڑے
چونک کر میں نے دیکھا
حرارت بھرے فاصلے پر بگولہ کھڑا تھا
وہ تھا باد زادہ
مگر گرد کے ایک چکر میں تھا
یہ میری سکونت کا کیا خوب بہانہ ہے
دل میں تِری چاہت کا بھرپور خزانہ ہے
لہجے میں مِرے تو ہے جھلکے ہے نگاہوں میں
تن کا یہ مِرے پنجرہ تیرا ہی تو خانہ ہے
تُو میرا زمانہ ہے تُو ہی مِری دنیا ہے
تُو ہی مِری دنیا ہے تُو میرا زمانہ ہے
زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے
خدا کے بندوں پہ ہرگز ستم نہیں کرتے
ذخیرہ ختم ہوا ہے ہمارے اشکوں کا
ہم اس لیے بھی ان آنکھوں کو نم نہیں کرتے
ہماری عمر میں خوشیوں سے غم زیادہ ہیں
خوشی کو غم سے کبھی محترم نہیں کرتے
دو انگلیوں سے نشاں جیت کا بناتے ہوئے
چلے ہیں سُوئے قفس چور مسکراتے ہوئے
میں عادلوں کی عدالت سے خوب واقف ہوں
یہ مجرِمین رِہا ہوں گے دندناتے ہوئے
وہ خود کو کرتے ہیں ظاہر شہید ابنِ شہید
جو پکڑے جائیں سرے کا محل چھپاتے ہوئے
سازش
جب سازش حادثہ کہلائے
اور سازش کرنے والوں کو گدی پر بٹھایا جانے لگے
جمہور کا ہر ایک نقش قدم
ٹھوکر سے مٹایا جانے لگے
جب خون سے لت پت ہاتھوں میں
اس دیش کا پرچم آ جائے
بیٹیاں اور باپ
تحفظ اور سکوں کی انتہا ہے واسطے میرے
مجھے پوچھو کہ میرا باپ کیا ہے واسطے میرے
میرا بابل میں جس سے میں ناز اٹھوانے کی عادی ہوں
میں جس کے واسطے روز ازل سے شہزادی ہوں
مری جو ان کہی سمجھے، مرے خوابوں کو پہچانے
کمر اس کی میری پہلی سواری، اور پھر شانے
وفا میں پیکر ایثار بننا کتنا مشکل ہے
کسی کے پیار کا حقدار بننا کتنا مشکل ہے
مسائل ہر قبیلے کے سمجھ لینا تو ہے آساں
قبیلے کا مگر سردار بننا کتنا مشکل ہے
تصادم ہے یہاں باہم مفادات خصوصی ہیں
یہاں پر غیر جانبدار بننا کتنا مشکل ہے
بے خبری کی آغوش
انہیں سردی نہیں لگتی
انہیں ذِلّت کی ساعت نے پرانے سیم نالوں کے
کناروں پر گھسیٹا ہے
اور ان کے کالے ہونٹوں پر
لگی ہے مُہر صدیوں سے
یہ کلّر تھور دھرتی میں
کفن چور
کچھ نہیں گھر میں مِرے کچھ بھی نہیں
کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا
لقمۂ نانِ جوِیں، خون کو دھکا دیتا
من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں
رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا
وطن کے لیے
یہ ارض وطن میری تمناؤں کا گھر ہے
یہ پاک زمین دشت میں خوشبو کا سفر ہے
اقبال کے خوابوں کی ہے تعبیر یہ دھرتی
قائد کی مِرے، جہدِ مسلسل کا اجر ہے
تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا صِلہ ہے
شہداء کی یہ قربانیوں، جانوں کا ثمر ہے
کھل کے آ جائے گی ہر بات، ذرا صبر کرو
وقت ہے کاشفِ حالات، ذرا صبر کرو
صبح نکلے گی تو ہو جائے گی ظاہر ہر شے
چند گھڑیوں کی ہے یہ رات، ذرا صبر کرو
سامنے کون ہے اور کون پسِ پردہ ہے؟
چھپ سکے گی نہ کوئی بات، ذرا صبر کرو
آپ تو عشق میں دانائی لیے بیٹھے ہیں
اور دِوانے ہیں کہ رُسوائی لیے بیٹھے ہیں ہم
خانۂ ہجر میں یادیں تِری رقصاں ہوں گی
ہم اسی شوق میں تنہائی لیے بیٹھے ہیں
تجربہ ہم پہ تغافل کا نہ کیجے، ورنہ
کچھ ہُنر ہم بھی کرشمائی لیے بیٹھے ہیں
ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا
کوئی چہرہ ایسا بھی چاہیے جو پس نقاب نہیں رہا
تِری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی
یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا
تھیں سماعتیں سر ہاؤ ہو چھڑی قصہ خانوں کی گفتگو
وہی جس نے بزم سجائی تھی وہی باریاب نہیں رہا
نئی کتابوں میں یہ بھی لکھنا
کہ پچھلا سارا سفر
تو ریت اور دھوپ کا تھا
درخت کے سائے میں فنا
اور ثمر میں زہریلے ذائقے تھے
ہوا سے پیاس اور خاک سے بھوک
ابنِ آدم
میں نے مہکائے ہیں شعلے، میں نے دہکائے ہیں پھول
میں نے کاٹے ہیں صنوبر، میں نے چُومے ہیں ببول
میں نے ڈھالے ہیں عزائم، میں نے توڑے ہیں اصول
ولولے میرے پیمبر، ہمہمے میرے رسول
کون کہتا ہے کہ میں فانی ہوں مشتِ خاک ہوں
میں زمیں کا فخر ہوں، میں نازشِ افلاک ہوں
فرقہ پرستی
طاقت ہو کسی میں تو مٹائے مری ہستی
ڈائن ہے مرا نام، لقب ہے فرقہ پرستی
میں نے بڑی چالاکی سے اک کام کیا ہے
پہلے ہی محبت کا گلا گھونٹ دیا ہے
میں فتنے اٹھا دیتی ہوں ہر اٹھتے قدم سے
اس دیش کے ٹکڑے بھی ہوئے میرے ہی دم سے
چلمنِ شرم و حیا رُخ سے اُٹھا دی جائے
اب نہ جذبات کے شعلوں کو ہوا دی جائے
پیار کرنا ہے اگر جُرم تو دنیا والو
میں بھی مجرم ہوں جو جی چاہے سزادی جائے
رکھ کے مرہم کوئی مظلوم کے زخموں پہ نیا
داستاں ظُلم و تشدد کی دبا دی جائے
جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا
حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا
نقش ہی نقش وہ میری ہی جبیں سائی کا
حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا
محو ہے عکس دو عالم مری آنکھوں میں مگر
تو نظر آتا ہے مرکز مِری بینائی کا
مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی تِرے بعد بھی
نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی
تُو ہُوا نہیں، تجھے مجھ سے دُور کیا گیا
مِرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی
مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی، اسی لیے
مِرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی
کوئی رُت بھی نہیں دنیا میں سُہانی دل سے
کتنی بے کیف رہی نقل مکانی دل سے
تم نے جو درد کا بادل سا اُمڈتے دیکھا
یہ تو نِکلی ہے مِری رنج بیانی دل سے
کتنے چہرے ہیں نئے، آنکھ میں آتے جاتے
ہائے، جاتی ہی نہیں شکل پرانی دل سے
سخن سے بھرتے تھے صفحات، کاٹ دیتے تھے
ہم اِس عمل میں ہر اک رات کاٹ دیتے تھے
دُکھی نہ ہو، فقط اُجرت کٹی ہے، اے معمار
سنا ہے پہلے یہاں ہاتھ کاٹ دیتے تھے
فرشتے میری مناجات لکھتے تھے، لیکن
خدا سے میری شکایات کاٹ دیتے تھے
خبر پیک اشک آ کے یہ کہہ گیا
پھپھولوں میں دل پھوٹ کر بہہ گیا
جب آئینہ خانے میں وہ مہ گیا
ہر آئینہ منہ دیکھ کر رہ گیا
چھٹا غم سے سر پھوڑ کر کوہکن
بڑی سر کھپی سے کڑی سہ گیا
گھر کے آنگن میں جو دیوار اٹھا دیتے ہیں
وہ، مسلسل کسی فتنے کو ہوا دیتے ہیں
سُرخ، پتھر کی حویلی سے نسب ملتا ہے
ہم محبت کی ہری شاخ، جلا دیتے ہیں
گو، کہ معلوم ہے فرعون صفت ہو پھر بھی
چل تِِرے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا دیتے ہیں
سرِ شام جب بھی دِیا جلا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی تازہ بابِ سخن کُھلا تو خیال تیری طرف گیا
کسی اجنبی سے دیار میں، کسی بےکسی کے غبار میں
کوئی اپنے شہر کا مِل گیا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی شام دل کو بھلی لگی تو زمیں ستاروں سے بھر گئی
کہیں چاند ابر میں چُھپ گیا تو خیال تیری طرف گیا
کشمکش ہے زندگی میں وہ کہ حاصل کچھ نہیں
میں کسی قابل نہیں، یا میرے قابل کچھ نہیں
ٹھہرے پانی کی طرح ساکت ہے اپنی زندگی
ایک مدت سے ہمارے دل میں ہلچل کچھ نہیں
ایک لمحہ ہی کوئی ہو درد سے خالی کہاں
اور بظاہر جسم و جاں میں ایسا گھائل کچھ نہیں
یہ اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم تحریر کرتا ہے
کہ جو صدیوں پہ بیتی ہے قلم تحریر کرتا ہے
میرے دل کی طرح میرا قلم بھی ایسا پاگل ہے
میں خوشیاں ہوں اسے کہتا، الم تحریر کرتا ہے
مچلتا کاغذوں کے ساتھ اتنا شوخ چنچل ہے
غزل لکھنے کا کہہ کر یہ نظم تحریر کرتا ہے
تم یہ جن کو چارہ گر بنائے بیٹھے ہو
یہ کیا بھولے پن کا در سجائے بیٹھے ہو
محلوں کے باسی مفلسی دور کریں گے؟
باطل سے کیا اُمیدِ گھر بسائے بیٹھے ہو
جن کی عشرتوں سے اجڑا ہے چمن اپنا
ان سے آسِ بال و پر لگائے بیٹھے ہو
یہ چہرہ ہے گل ہے یہ گلشن ہے کیا ہے
سویرا ہے شبنم ہے درپن ہے کیا ہے
یہ شرم اور تبسم یہ آنکھوں میں کاجل
ادا ہے کلی ہے کہ بچپن ہے کیا ہے
نظر جھک رہی ہے خموشی ہے لب پر
حیا ہے ادا ہے کہ ان بن ہے کیا ہے
ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی
کہ سنائی نہیں دیتی کوئی سرگوشی بھی
دل گرفتار تذبذب ہے کدھر کو جائے
گھر بھی یاد آتا ہے اور دشت فراموشی بھی
یہ حقیقت ہے کہ بے مثل ہے خود اس کی طرح
اس خوش اندام کی خوش باشی و خوش پوشی بھی
پچھلے ہجر کا موسم سارا پوچھے گا
کم بولے گا لیکن اتنا پوچھے گا
کوئی تو مشورہ لے گا عشق کے بارے میں
کوئی تو آئے گا مجھ سے رستہ پوچھے گا
ہر لہجے میں ڈھونڈے گا میری آواز
جس سے بات کرے گا میرا پوچھے گا
میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا
مگر میں اندر سے یار پورا ڈرا ہوا تھا
تو میرے لاشے پہ اس قدر بھی نہ ہو فسردہ
میں اپنے مرنے سے پہلے بھی تو مرا ہوا تھا
یہ نیم گریہ، سکوت شب اور ذرا سی وحشت
خدا سے ملنے کا اک وسیلہ بنا ہوا تھا
بدن تھکے ہوئے مسدود راستے ہیں دکھ
جو منزلوں پہ نہ پہنچے وہ قافلے ہیں دکھ
کھلے گلاب، کھلی کھڑکیاں، حسین چہرے
جہاں گئے ہیں وہیں ہم کو مل گئے ہیں دکھ
تمہارے نقش قدم، شاخ سے گرے پتے
ہماری راہ میں کتنے بچھے ہوئے ہیں دکھ
کیوں تجھے ڈر ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گی
میں تو نکہت ہوں، فضاؤں میں بکھر جاؤں گی
ساری دنیا سے کٹی ہوں تجھے پانے کے لیے
تُو نے ٹُھکرا دیا مجھ کو تو کدھر جاؤں گی
تُو مِرے حالِ پریشاں سے پریشان نہ ہو
لمس پا کر تِری خُوشبو کا میں نکھر جاؤں گی
وہ سو رہا ہے خُدا دُور آسمانوں میں
فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں
زمیں پہ گرتے ہیں کٹ کٹ کے سر فرشتوں کے
عجیب زلزلہ آیا ہے آسمانوں میں
سڑک پہ آ گئے سب لوگ بلبلاتے ہوئے
نہ جانے کون مکیں آ گئے مکانوں میں
برستی کم ہے، پہ برسات تو کمال کی ہے
وقار ہے یا خرافات، تو کمال کی ہے
کسی میں کچھ بھی نہیں ہے ارے! ترے جیسا
جدا سبھی سے حسیں بات، تو کمال کی ہے
ادھار تیرے لبوں سے شہد مٹھاس کا لے
اسے بھی علم ہے سوغات تو کمال کی ہے
شب فراق کا مارا ہوں، دل گرفتہ ہوں
چراغ تیرہ شبی ہوں میں جلتا رہتا ہوں
کبھی کا مار دیا ہوتا زندگی نے مجھے
یہ شکر ہے کہ میں زندہ دلی سے زندہ ہوں
کوئی فریب تمنا، نہ جلوہ اور نہ خیال
دیار عشق میں تنہا تھا، اور تنہا ہوں
مٹا ہے کبرِ عبادت کس اہتمام کے ساتھ
کہ دو سجود ہیں واجب ہر اک قیام کے ساتھ
نہ تھی جو فکر مسلسل سبک مزاجوں کی
ہر ایک سمت میں دوڑے ہوائے بام کے ساتھ
زباں پہ حرفِ دعا ہے تو ساتھ دل بھی جھکے
کِیا درودﷺ کو واجب مگر سلام کے ساتھ
لازم ہے اس جہان میں پہچان ڈھونڈنا
عنوان زندگی کا مِری جان ڈھونڈنا
پہلے تم اپنا دستِ محبت کرو دراز
اور اس کے بعد سایۂ امکان ڈھونڈنا
مانا یہ بزم اپنے ہی لوگوں کی بزم ہے
لہجے میں جو چُھپے ہیں وہ پیکان ڈھونڈنا
نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل
دن سارے ہو گئے ہیں بے نام آج کل
انسان ڈر رہا ہے انساں کے ساتھ سے
پھیلا ہوا ہے خوف سا ہر گام آج کل
فردا کا خوف ہے کبھی ماضی کے تذکرے
بے حال ہے ہماری ہر شام آج کل
اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں
صرف لے دے کے یہ توفیقِ ہنر مانگتے ہیں
اے کہ صحراؤں میں خورشیدِ تمازت کے خدا
ابر پارے نہیں بس ایک شجر مانگتے ہیں
ہجرتیں فرضِ کفایہ نہیں رہنی اب کے
سو اپاہج بھی یہاں اذنِ سفر مانگتے ہیں
معنی کی تلاش میں مرتے لفظ
صحن میں پھیلی ہے
تلخ تر رات کی رانی کی مہک
کمرۂ حیرت میں
خواب کی شہزادی
بال بکھرائے مرے سینے پر
کب سے اک خواب ابد میں گم ہے
اپنے پندار انا میں ایسا دیوانہ ہوا
چاندنی راتوں میں وہ دیکھا گیا روتا ہوا
اس کا ہر اک فعل تھا سوچا ہوا، سمجھا ہوا
دشتِ جاں میں میرے اک آہو تھا وہ بھٹکا ہوا
بے وفا اب بھی ہے ذہن پرچھایا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ سارے شہر میں رُسوا ہوا
سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے
سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے
چلو کچھ دیر کو اس سلسلے کو چھوڑ کر دیکھو
ذرا دُکھ نا تمامی کے یہاں پر بُھول کر سوچو
غموں کا بار اوروں کے کبھی خود بھی اُٹھا لو تم
خزاں کی رُت میں بھی ابر بہاراں کی دُعا دو تم
پرندے چہچہاتے ہر شجر کے ہوں
بنا بیٹھا ہے گھر سارے جہاں کو
کوئی تنہا نہ سمجھے بے مکاں کو
نہ راز افشا کرو ہمراز پر بھی
خبر ہو جائے گی سارے جہاں کو
ذرا سی بات پر جو روٹھ جائے
خدا ہی سمجھے ایسے بدگماں کو
اس کو کرنا تھی بے وفائی کی
ہم نے کیوں زور آزمائی کی
اس نے بس یوں ہی یاد کر ڈالا
ہم نے بھی رسم کی ادائی کی
لیں محبت کی ڈگریاں ہم نے
اس نے قانون کی پڑھائی کی
محبت کی صہبا پلانے چلا ہوں
زمانے کو انساں بنانے چلا ہوں
خوشی اہلِ گلشن کو یہ سن کے ہو گی
مسرت کے نغمے سنانے چلا ہوں
چراغ رخ مہر و انجم کو لے کر
زمانے کی ظلمت مٹانے چلا ہوں
روشنی لالٹین سے مقدّم ہے
روشنی لالٹین سے مقدّم ہے
نظم ڈائری سے زیادہ اہم ہے
اور بوسہ لبوں سے زیادہ قیمتی ہے
تمہارے نام میرے خط
ہم دونوں سے زیادہ عظیم بھی ہیں اور مقدّم بھی
صرف یہی وہ دستاویز ہیں
سیاست کر لو لاشوں پر
کہ ان میں کوئی بھی لاشہ
نہ بھائی ہے تمہارا
اور نہ بیٹا ہے نہ بیٹی ہے
نہ ان سے درد کا بندھن
نہ کوئی خون کا رشتہ
گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو
اک بار مجھے پھر سے ذرا چاک پہ رکھو
اک برف کی سِل قلبِ پریشاں پہ اتارو
اک دشت مِرے دیدۂ نمناک پہ رکھو
تم رمزِ شہادت کے معانی نہیں سمجھے
سر نوک کی سدرہ پہ، بدن خاک پہ رکھو
لوگوں کو دے سکے نہ جو کوئی ثمر بھلا
ایسے ہنر وروں سے تو میں بے ہنر بھلا
تم پھر سے چل پڑے ہو محبت کی راہ پر
کرتا ہے کوئی کام یہ بارِ دگر بھلا
یادوں میں آ گیا کوئی بھولا ہوا خیال
شعروں میں آ گیا ہے پلٹ کر اثر بھلا
کون کہتا ہے تُجھے اپنایا نہیں گیا
تمہیں میری جاں ٹُھکرایا نہیں گیا
پری چہروں پہ جو اُداسیاں نُمایاں ہیں
لگتا ہے ناز نخروں کو اُٹھایا نہیں گیا
پَروان چَڑھتا دِلوں میں عِشق کیونکر
جب اُسے خونِ جِگر پِلایا نہیں گیا
آج گھبرا کے پھر وحشتِ ذات سے
روشنی مانگ لی ہے سیہ رات سے
پارہ پارہ ہوئی خامشی حال کی
شور اٹھا وہ یادوں کی بارات سے
بے ہنر اہلِ زر نامور ہو گئے
وہ جو واقف نہیں تھے کمالات سے
سب نے مجھ سے کیا ہے کنارا
صرف تیرا ہے یا رب سہارا
اشک غم یوں ہی بہتے رہیں گے
یا رکے گا کبھی غم کا دھارا
میری کشتی ہے طوفاں کی زد میں
مل گیا بحر غم کا کنارا
تمہیں دل نے پکارا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ
بہت ہی تم کو ڈھونڈا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ
تمہارے بن نہ جیتا ہوں، تمہارے بن نہ مرتا ہوں
عجب ہی حال میرا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ
بنا کر آپ کی تصویر اس سے پوچھتا ہوں میں
ابھی کتنا ستانا ہے؟، کہاں ہو تم چلے آؤ
بلا کا شور و فغاں ہے نہاں خموشی میں
میں کھل کے سامنے آیا ہوں پردہ پوشی میں
نگاہِ عدل سے دیکھیں تو میرِ محفل کے
جلال و مال معاون ہیں عیب پوشی میں
میں تن ہوں، شہ رگِ جاں کو مجھے بچانا ہے
چلا ہوں جانبِ کشمیر سرفروشی میں
لگتے ہیں پریشان در و بام سرِ شام
ہر سمت پڑی حسرتِ ناکام سرِ شام
اک بار اگر وصل کی صورت جو نکل آئے
ہو رقص مری جان سرِ عام سرِ شام
چپ چاپ جلاتا ہوں دیا پیار کا جس روز
ہوتا ہوں اسی روز میں بدنام سرِ شام
یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے
دل کے بسنے اور اجڑنے کی کہانی یاد ہے
یاد ہے اب تک کسی کی مہربانی یاد ہے
عارضوں پر اپنے اشکوں کی روانی یاد ہے
بستر حرماں پہ وہ پہلو بدلنا بار بار
غم کی راتوں میں وہ قہر آسمانی یاد ہے
جب ستاروں کی ردا کاندھے سے سرکاتی ہے رات
چاند کے سینے سے لگ کر نور بن جاتی ہے رات
خود تڑپ کر کس قدر مجھ کو بھی تڑپاتی ہے رات
اشک شبنم جب مِری حالت پہ برساتی ہے رات
خون دل دے کر افق رنگین کر جاتی ہے رات
روشنی ہونے سے پہلے قتل ہو جاتی ہے رات
خود کو جینا سکھا دیا میں نے
تجھ سے اچھا نہیں کیا میں نے
پیڑ پر دو حروف لکّھے تھے
سارا جنگل جلا دیا میں نے
پردہ پوش اور پردہ دار میں فرق
تُو نے واضح کیا ہے یا میں نے
دیے کو جس طرح لازم ہے طاق چاہیے ہے
جنوں کو دل کا گریبان چاک چاہیے ہے
میں آشنائے عذابِ فراق ہوں سو مجھے
سزا ہو یا کہ عطا، کربناک چاہیے ہے
یہ بوترابؑ کی نسبت کا ہے اثر مجھ پر
سکوں کے واسطے بس مجھ کو خاک چاہیے ہے
تمہاری شکل مرے آئینے میں پڑتی ہے
یہ زندگی تو یونہی راستے میں پڑتی ہے
میں دن میں جھیلتا ہوں جون کو دسمبر میں
مگر یہ شام مجھے ملگجے میں پڑتی ہے
مِرے ہی پاؤں تلے آ گئی مِری آنکھیں
دِیے کی لَو تو فقط طاقچے میں پڑتی ہے
بھر کے دامن میں ترا رنج، تری یاد سمیت
لوٹ جائیں گے اسی گریۂ بے داد سمیت
جیسے ہم کارِ جہاں کیلئے موزوں ہی نہ ہوں
ہم کو لَوٹا دیا جاتا رہا اسناد سمیت
لوگ چوپال میں بیٹھے تھے مگر ساکت تھے
ہم بھی خاموش رہے زخم کی روداد سمیت
نمائشِ حرم و جشنِ دَیر دیکھتے ہیں
عجب معاملے دورانِ سیر دیکھتے ہیں
نجانے کوئی سمے ہے وصال کا اے دوست
ہم ان دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں
دِکھا رہا ہے ہمیں دل نئے نئے صحرا
سرابِ دید کی منزل ہے، خیر دیکھتے ہیں
ہم جو بچھڑے ہیں تو آنکھوں کو بھگوتے ہی رہے
موتی پلکوں پہ ہمہ وقت پروتے ہی رہے
ہم تو سوئے تھے گھنی نیند کی چادر اوڑھے
خواب کیا دیکھ لیا ایسا کہ روتے ہی رہے
یا تو وہ دے نہ سکے درد کے لمحوں کو خراج
یا نئے زخم ملے ہیں جنہیں دھوتے ہی رہے
محبت ہے وہ قلزم جس کی طغیانی نہیں جاتی
کٹی اک عمر لیکن دل کی ویرانی نہیں جاتی
بڑی مدت سے زنجیرِ فرنگی کٹ گئی لیکن
مگر ذہنوں سے اب تک اُن کی نگرانی نہیں جاتی
جو سر سجدے میں کٹے جائے محبت کے تقاضے پر
جہانِ عشق میں ضائع وہ قربانی نہیں جاتی
اب تک مجھے نہ کوئی مِرا رازداں مِلا
جو بھی مِلا اسیرِ زمان و مکاں ملا
کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گُریز
سو بار بجلیوں کو مِرا آشیاں ملا
اُکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش میں
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا
مشورہ
کاگا سب سے پہلے میری
دونوں آنکھیں ہی کھا لیجیو
ایسی آنکھوں کا کیا کیجیو
پی کو جو اپنے جاتا دیکھیں
تنظیم الفردوس
جہاں تنگ نظر سماج ہو
جہاں لٹیروں کا راج ہو
جہاں غریبوں کی آہ کا
اور نہ شہیدوں کی لاج ہو
جہاں فقیروں کی زندگی میں
نہ عیش ہو نہ اناج ہو
سوال سوال سیاہ کشکول
مدتوں سے
خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں
کھڑا وہ
میری پُتلیوں میں
سوالوں کا نیزہ اُتارے ہوئے پُوچھتا ہے
میں تیری تمنا میں اپنے لیے
ماضی و حال
ماضی
اس وقت جب ظہیر تھا اک گبرو نوجواں
بُھولے ہوئے تھے عشق کے چکر میں ایں و آں
اُس دورِ پُر فریب کا کیا حال ہو بیاں
"تھا چار میل پر مِرے محبوب کا مکاں"
"دس میل میں چلا گیا زورِ شباب میں"
ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت
کہ خود کو دیکھنا چاہیں تو آئینے ہیں بہت
نہ جانے کون سی منزل پہ آ گئے ہم لوگ
کہ ہاتھ پاؤں ہیں شل اور ولولے ہیں بہت
ہمارے اشک حقارت سے دیکھنے والو
کسی زمانے میں ہم لوگ بھی ہنسے ہیں بہت
لگا لیتے ہیں سینے سے اجازت کی طرح تم کو
محبت کی ہے ہم نے تو محبت کی طرح تم کو
ہمیشہ ہم نے دیکھا ہے تقدس کی نگاہوں سے
ہمیشہ ہم نے سوچا ہے عبادت کی طرح تم کو
مرے سینے پہ جس لمحے کبھی روئے ہو سر رکھ کر
اسی لمحے میں پایا سخاوت کی طرح تم کو
کیا کرے گا دوسروں کو جان کر
پہلے اپنے آپ کی پہچان کر
یہ زمانہ لا ابالی کا نہیں
پھونک کر پی چھاچھ پانی چھان کر
کیوں الجھتے جا رہے ہو بار بار
دل میں آخر آئے ہو کیا ٹھان کر
گردش میں غریبوں کا ہر وقت ستارا ہے
کہنے کو ہیں سب اپنے، پر کون ہمارا ہے
تزئینِ بہاراں میں یہ خون ہمارا ہے
برباد گلستاں کو ہم نے ہی سنوارا ہے
یوں امن کی بستی میں طوفاں نہ بپا ہوتا
’’کچھ اپنوں کی سازش ہے کچھ اُن کا اشارا ہے ‘‘
آگ سینے کی بجھا لوں پانی
سرخ آنکھیں ہیں بہا لوں پانی
خرچ کم کم ہو سنبھالوں پانی
ہو سکے جتنا بچا لوں پانی
عنقا ہونے لگا ہے اب یہ بھی
سب کی نظروں سے چھپا لوں پانی
زندگی جس کی غزالی ہو گی
اس کی ہر بات نرالی ہو گی
میں سمجھتا تھا خیالی ہو گی
کیا خبر تھی کہ زوالی ہو گی
اپنی آنکھوں میں بسا کر اس نے
میری تصویر بنا لی ہو گی
دھڑکنوں کی زباں میں رہتا ہوں
ہر نئی داستاں میں رہتا ہوں
میں نے چاہا نہیں خُدا ہونا
پھر بھی کیوں لامکاں میں رہتا ہوں
چلتے رہنا مِرا مقدر ہے
وقت کے کارواں میں رہتا ہوں
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
نیا یہ شہر ہے لیکن
اکیلے پن کی وحشت نے
یہاں بھی گھیر رکھا ہے
وہی الجھن پریشانی
جو پہلے تھی
سو اب بھی ہے
وقت کا مقروض مت رہ کام یہ باقی نہ رکھ
تجربے دُنیا کو لوٹا، بات الحاقی نہ رکھ
مصلحت کے بِیج سے اُگتی ہے کج فہمی کی بیل
تیرے میرے درمیاں اب کوئی ناچاقی نہ رکھ
اس زمیں کے واسطے تیری سُخن گوئی ہے ٹھیک
تُو فرشتوں کے لیے اک شعر آفاقی نہ رکھ
فضائے دشت مجھے اپنے گھر سی لگتی ہے
چٹان ریت کی دیوار و در سی لگتی ہے
تُو ڈالتا ہے مِرے سر پہ پیار سے آنچل
تو اپنی ہستی مجھے معتبر سی لگتی ہے
کچھ اس طرح مِرے گُلشن میں آگ پھیل گئی
بھرے چمن پہ کسی کی نظر سی لگتی ہے
مانا کہ بہت زیادہ گنہ گار نہیں ہوں
لیکن تِری فردوس کا حقدار نہیں ہوں
چاہے تو مِرے دل میں کوئی شوق سے آئے
کرتا میں کسی شخص کو اصرار نہیں ہوں
کہتا میں ہر اک شعر نہیں دیکھ، پرکھ کے
لکھتا میں غزل سوچ کے ہر بار نہیں ہوں
جو پیاس پھیلی سرِ جسم و جاں سکون کی ہے
ہوائے شہر وگرنہ کہاں سکون کی ہے
میں اک بھنور میں پھنسا ہوں تو کیا ہوا یارو
بس ایک موج سی مجھ میں نہاں سکون کی ہے
بہار لاکھ لبھاتی رہے تِرے دل کو
مجھے خبر ہے کہ اب یہ خزاں سکون کی ہے
ثواب کا یہ قرینہ بھی آزمایا جائے
کسی کے دل میں کوئی راستہ بنایا جائے
نظر میں رہنے کا سادہ سا یہ طریقہ ہے
کسی بہانے وہاں روز آیا جایا جائے
ہمارے عیب کا اظہار اس طرح سے ہو
ہمیں بتا کے کسی کو نہیں بتایا جائے
دوست سب ہو گئے اوجھل وہ پرانے اپنے
جن کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے اپنے
ہم محبت کے علمدار، وفا کے خوگر
اب بھی گاتے ہیں وہی گیت پرانے اپنے
ہو گئے خود وہ زمانے میں فسانوں کی طرح
جو سناتے تھے ہمیں روز فسانے اپنے
کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر
آ گیا دیس سے میں دیس نکالا لے کر
مجھ کو محفل سے نکالے گا بھلا وہ کیسے
میں تو آیا ہوں یہاں تیرا حوالہ لے کر
کسی دیوار میں بھی دیکھا نہیں دروازہ
بڑا مایوس ہوا ہاتھ میں تالا لے کر
ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل
صبر کا پھر امتحاں ہے آج کل
ہم سے روٹھا ہے تو پھر کس سے ہے خوش
کس پہ آخر مہرباں ہے آج کل
دل بھی پژمردہ ہے آنکھیں مضمحل
یاد بس تیری جواں ہے آج کل
یہ وہ جہاں نہیں جہاں آزار ہی نہ ہو
گلزار کون ہے وہ جہاں خار ہی نہ ہو
اچھا ہے ان سے کوئی سروکار ہی نہ ہو
جن دوستوں میں جوہر ایثار ہی نہ ہو
اس بزم شب کے حشر پہ روتا ہے وقت بھی
جو انقلاب دہر سے بیدار ہی نہ ہو
اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا
فرہاد و قیس میں مِرا بھی نام آ گیا
توبہ شکن نہیں تھا مگر رہ نہیں سکا
اے شیخ! سامنے مِرے جب جام آ گیا
دینا نہ دل کسی کو مجھے وہ سِکھا گیا
وہ بے وفا ہو کر بھی مِرے کام آ گیا
دیکھا اسے، قمر مجھے اچھا نہیں لگا
چھو کر اسے، گہر مجھے اچھا نہیں لگا
چاہا اسے تو یوں کہ نہ چاہا کسی کو پھر
کوئی بھی عمر بھر مجھے اچھا نہیں لگا
آئینہ دل کا توڑ کے کہتا ہے سنگ زن
دل تیرا توڑ کر مجھے اچھا نہیں لگا
کہیں آزاد ہوتی ہے کہیں زنجیر ہوتی ہے
میاں اس عشق کی کچھ ایسی ہی تاثیر ہوتی ہے
اگر موقع ملا تو خود خدا سے پوچھ لوں گا میں
کہ کیوں میرے ہی جیسوں کی بُری تقدیر ہوتی ہے
مِری جیبیوں میں گر اک پیسہ بھی ہوتا نہیں،لیکن
مِرے بٹوے میں برسوں سے تِری تصویر ہوتی ہے
تصور کا سودا
پاؤں پاؤں سسکتی ہوئی زمین
سائیں سائیں سِمٹتا یہ جہان
دھوپ کی چادر ہاتھوں میں اٹھائے لوگ
تڑپ رہے ہیں نجات کے لۓ
نجات بلاؤں سے
آسمانی بلائیں
خوش ہو جاتا ہوں کہ شاید تیرا ہے
نئے نمبر سے جب بھی میسج آتا ہے
اب تم اتنی امیدیں کیوں رکھتے ہو
ہر اک بال پہ چھکا تھوڑی ہوتا ہے
پہلی بار میں دل دے جانے والے سُن
اچھی چیزیں کون کسی کو دیتا ہے
تجھے چُھو کر بھی مِری روح میں شدت نہیں ہے
دل لگی سی ہے یہ دراصل محبت نہیں ہے
اپنے اندر ہی گُھٹا رہنے لگا ہوں اب تو
تیرے غم میں ابھی رونے کی نزاکت نہیں ہے
میرے جذبوں میں مِری روح کی پاکیزگی ہے
جو بھی لکھتا ہوں مجھے اس کی ملامت نہیں ہے
محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفی
لیے داغ جدائی حسرت ناکام ہے صوفی
اگر الزام ہے کوئی تو یہ الزام ہے صوفی
کہ تو اپنی شرافت کے لیے بدنام ہے صوفی
ہمیں ہر دور میں تھے گردش ایام کے مارے
مگر ہم سے علاج گردش ایام ہے صوفی
شگوفے آرزو کے پُھوٹتے ہیں
حسیں جب بن سنور کر گھُومتے ہیں
لبوں کی نازکی پُھولوں سے بڑھ کر
گُلابی گال اب دل لُوٹتے ہیں
تیرے نوخیز جوبن کی ہوا سے
مِرے قلب و نظر سب جُھومتے ہیں
ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب
بہت کٹھن تھا ہمارا تو ابتدائے نصاب
میں جانتی ہوں میرا قتل عین واجب ہے
کہ پڑھ رہی ہوں سرِ عام ماورائے نصاب
محبتوں کی کہانی کہاں سے دہرائیں؟
کہ نقش دل پہ وہی ہو جسے مِٹائے نصاب
حریمِ ناز مِرا کعبہ اور حرم، تِرا غم
کسی حصار سے مجھ کو نہیں ہے کم ، ترا غم
بس اس نشانی سے پہچانتے ہیں لوگ مجھے
کہ میرے چہرے پہ ہے جا بجا رقم، ترا غم
کہ کارِعشق میں حاصل ہوا ہے کیا مجھ کو
کوئی جو پوچھے تو رکھ لیتا ہے بھرم، ترا غم
پناہ مانگنے خانہ خراب آئے گا
میری زمین پر وہ آفتاب آئے گا
نوشتہ میرے مقدر کا ڈھونڈتے پھرتے
کہیں نہ جائے گا ، میری جناب آئے گا
مجھے سنبھال کے رکھنا کہ قیمتی شئے ہوں
میں ٹُوٹ جاؤں تو اک انقلاب آئے گا
فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں
یہی خیال ہے جی میں کہ گھر نہ جاؤں میں
بدن کے تپتے جہنم میں خواہشوں کا سفر
اسی سفر کے بھنور میں اتر نہ جاؤں میں
ہوئی تمام مسافت اس ایک خواہش میں
کہ اب وہ لاکھ بلائے مگر نہ جاؤں میں
اے عمرِ رواں گرمئ رفتار کہاں تک
گردِش میں رہیں صورتِ پرکار کہاں تک
پیوندِ جُنوں زینتِ پوشاکِ خِرد ہو
دامن تِرے یوسف کا رہے تار کہاں تک
دریا کو مِلیں بھینٹ میں شہزادیاں لیکن
بدلے میں ہمیں وادئ پُر خار کہاں تک
ہم راہ میں کھڑ ے تھے پتھر کے دیس میں
شیشے کے بُت پڑے تھے پتھر کے دیس میں
چل چل کے ساتھ اپنے راہیں بھی رو پڑیں
ہم در بدر پھرے تھے پتھر کے دیس میں
پنچھی کے کتر دئیے دُنیا نے؛ "اُڑ" کہا
بے پر پرندے اُڑے تھے پتھر کے دیس میں
شکایت کر رہا ہے دل خدا سے
یہی تو کام اپنا ہے سدا سے
اسے پہچان کر پھر بھول جانا
جسے تو مانگتا ہے انتہا سے
کہیں پر بیچ کی دیوار بن جا
مجھے ڈر لگ رہا ہے انخلا سے
رنگِ بیاں بدل گیا، طرزِ فغاں کو کیا ہُوا
رونقِ بزم ہے وہی میرے جہاں کو کیا ہوا
ابرِ بہار چل دیا، اب نہ کوئی کھنک نہ شور
رِند کہاں چلے گئے، پیرِ مغاں کو کیا ہوا
وہ جو تمہاری بزم سے اُٹھ گئے ان کا ذکر کیا
وہ جو وہیں کے ہو رہے اُن کے نشاں کو کیا ہوا
فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے
کہ سچائی کے حامی بھی نظر جلدی نہیں آتے
تلاش رزق میں کچھ اس قدر مصروف رہتا ہوں
مری بچی یہ کہتی ہے کہ گھر جلدی نہیں آتے
نہ غم کا غم ہے مجھ کو اب نہ خوشیوں کی خوشی مجھ کو
اب آنکھوں میں بھی اشکوں کے گہر جلدی نہیں آتے
سرشتِ حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے
بھنور کے بیچ بچھڑنے کی رائے دیتا ہے
تری ہنسی میں وہ سحرِ غنائے مطرب ہے
مری فغاں کو جو نغمہ بنائے دیتا ہے
کمالِ معرفتِ عشق کی بلندی پر
یہ کون پردۂ غیبت اٹھائے دیتا ہے
کس نے کیا پا لیا محبت میں
دھوکہ خود کھا لیا محبت میں
جب بھی دیکھی ہے بڑھتے بے چینی
دل کو سمجھا لیا محبت میں
تجھ سے آگے نظر نہ کچھ آئے
حد تجھے بنا لیا، محبت میں
دل ہماری طرف سے صاف کرو
جو ہُوا سو ہُوا معاف کرو
مجھ سے کہتی ہے اس کی شانِ کرم
تم گُناہوں کا اعتراف کرو
حُسن ان کو یہ رائے دیتا ہے
کام اُمید کے خلاف کرو
خُوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا
تُربت یہ گُل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا
ہو لب پہ رام رام، بغل میں چُھری رہے
جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا
ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پا سنگ رہ گیا
سفید بنیا
قرض دے کر غریب ملکوں کو
چھین لیتا ہے روحِ آزادی
آج زیرِ عتاب ہے اس کے
ہر بڑا شہر، ہر حسیں وادی
مُدتوں سر اُٹھا کے چل نہ سکا
اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا
ہم ایسے نقیبوں کی حمایت نہیں کرتے
حق بات جو کہنے کی جسارت نہیں کرتے
تنہائی شب میں بھی جو ہیں محوِ ریاضت
وہ لو گ دکھاوے کی عبادت نہیں کرتے
محفوظ کیا رہ پائے گا محلوں کا تقدّس
جو اپنے اساسوں کی حفاظت نہیں کرتے
کئی خیال، بہت وسوسے ستاتے ہیں
نہ آئے کال جب ان کی ، تو ہم ملاتے ہیں
کوئی بھی مونس و دمسازہے کہاں میرا؟
یہ لوگ وہ ہیں جو ملنے کو روز آتے ہیں
تو کیا ہُوا جو میرے لب پہ ایک نام آیا
جو ہم کو مِل نہیں پاتے، وہ یاد آتے ہیں
شہر وفا میں حشر کا سامان دیکھنا
اور یوں کِتابِ عشق کا عُنوان دیکھنا
گر خاک نشیں صاحبِ سالار ہو گئے
اُٹھے گا اُسی خاک سے طُوفان دیکھنا
جس آگ کے حِصار میں محکومِ وقت ہیں
پِگھلے گا اُسی آگ سے زِندان دیکھنا
والد
جب یتیموں کی عید ہوتی ہے
ساتھ ان کے بھی عید روتی ہے
قبر پہ باپ کی وہ جاتے ہیں
عید رو کر وہاں مناتے ہیں
عرش والے نے کیا ستم ڈھایا
ماں ہے سر پہ نہ باپ کا سایہ
پرندے سارے گھونسلوں میں چھپ گئے ہیں
پربتوں نے سفید چادر
اوڑھ لی ہے
میرے غم میں شریک ہیں سب
سکوت چھایا ہوا ہے ہر سو
تمہارے عہد و پیمان سارے
ستم تو یہ ہے کہ جن کے لیے اٹھائے عذاب
اٹھا کے جھولیاں دیتے ہیں بد دُعائے عذاب
ہمارے خواب ہمیشہ ہرے بھرے تھے مگر
ملا نہیں ہے ہمیں کچھ بھی ما سوائے عذاب
یہ زندگی کی دعا تھی کہ بد دعا تھی کوئی
برائے عشق گزاری ہے مبتلائے عذاب
مخملی غلاف میں
ریشمی لباس میں
سانچے ہیں جو خاک کے
یہ پربتوں میں ره چکے
گیت سبھی یہ کہہ چکے
مُٹھی بھر سکون سے
کیا رہا اے زندگی شام و سحر کوئی نہیں
منزلوں کی داد کیا دیں ہم سفر کوئی نہیں
بے ثباتی آ گئی دیوار دل کو پھاند کر
مرنے والے مر گئے ہیں نوحہ گر کوئی نہیں
کشتیوں کو چھوڑ کر ہم نے لیا اگلا قدم
کاروان میر کی لیکن خبر کوئی نہیں
تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے
قافلہ چُھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز
یاد آواز جرس رہ رہ کے تڑپا جائے ہے
خود زمانہ رُخ ہمارا دیکھتا ہے ہم نہیں
جس طرف مُڑتے ہیں ہم دھارا بھی مُڑتا جائے ہے
سمٹ جاتا کیسے اور پھر کیسے بکھرتا تھا
ہماری زندگی میں کوئی کیسے رنگ بھرتا تھا
سمجھ رکھا ہے جس نے پانیوں کو اپنی ملکیت
کبھی آ کر مِرے دریاؤں سے اپنے مشکیزے بھرتا تھا
تیرا یہ دل ہی میرے واسطے پہلی پناہ گاہ ہے
میں ورنہ کب کسی کے آئینوں میں یوں سنورتا تھا
دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے
ایسے ملتے ہیں کہاں لوگ قرینے والے
باقی سب زخم تو بھر جاتے ہیں رفتہ رفتہ
مجھ کو بے چین رکھیں زخم یہ سینے والے
اپنی چاہت کے بہت جام پلائے تھے جنہیں
یار میرے وہی نکلے یہاں، کینے والے
یوں نہ جاؤ
یوں نہ جاؤ سجل گھٹ کی طرح
من کی آنکھیں ابھی ترستی ہے
کھڑکیاں، تیرے گھر کی دیواریں
ساتھ میرے کھڑی سِسکتی ہے
دیکھ کے لپٹ کے قدموں سے
لان کی پتیاں لرزتی ہیں
عمر کٹ جائے گی اپنی تو یہ حاجت کرتے
تجھ کو چائے پہ بلاتے تِری دعوت کرتے
ان کو گر ایک نظر دیکھ لیا جاتا تو
وہ ہمارے ہی قبیلے کی حمایت کرتے
تم نے ہی ہاتھ بڑھایا تھا ہماری جانب
ورنہ ہم آنکھ مِلانے کی نہ جرأت کرتے
یہ سارے غم بکھر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو
کہ پھر سے ہم سنور جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو
یہ بے کیفی، اداسی، بے سکونی اور بے چینی
یہ سب موسم گزر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو
جلن محسوس ہوتی ہے ابھی تک جن میں رہ رہ کر
وہ سارے زخم بھر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو
وطن سے دور کی عید
برسوں سے ہم سنتے تھے
کہ عید خُوشی کو کہتے ہیں
وہ لوگ بھی کیا خُوش ہوتے ہیں
جو دُور وطن سے رہتے ہیں
وہ شہر نہیں، جذبات نہیں
وہ دوست نہیں، وہ سات نہیں
پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا
کانٹوں کو جھک کے پیار کسی نے نہیں کیا
یوں تو گلا خزاں کا سبھوں نے کیا مگر
شکرانۂ بہار کسی نے نہیں کیا
بنیاد عشق مصلحت آمیز ہو گئی
ملبوس تار تار کسی نے نہیں کیا
اتنا ہی تو ہُوا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
خُود کو بُھلا دیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
آنکھوں کو ان کا گوہر مقصود مِل گیا
ہاتھوں سے دل گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
دیکھا تجھے تو کاٹ لیں ہاتھوں کی اُنگلیاں
کچھ ہوش کب رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
جسے ہم شیخ سمجھے تھے
وہ کافر کا ہے آلہ کار
جسے ملاح جانا تھا
وہ ابلیسی سے محو کار
جو واعظ تھا
وہ دستور عمل پہ آپ تھا بیزار
عشق والوں کو سہارا کچھ نہیں
بہتے دریا کو کنارا کچھ نہیں
تُو کیوں آیا ہے رقیبا جان کو
ہم نے تیرا تو بگاڑا کچھ نہیں
مصائبوں پہ تم تو بس نوحہ کیے
تم نے دنیا کو سنوارا کچھ نہیں
دل تو ویران ہے ویران بھی ایسا ویسا
اُن کا احسان ہے احسان بھی ایسا ویسا
عشق کی آخری منزل پہ کھڑے ہم دونوں
اب بچھڑنے کا ہے امکان بھی ایسا ویسا
ہم بھی ہوں صاحبِ دیوان یہی خواہش ہے
اِک ہی دیوان ہو دیوان بھی ایسا ویسا
ویسے تو تِرے حسن کے میخوار بہت ہیں
پر مجھ سے کہاں صاحبِ اسرار بہت ہیں
ہر عشق تو اب اتنا مفصل نہیں ہوتا
بس میرے فسانے میں ہی کردار بہت ہیں
دریا بھی سمندر بھی ہیں اس عالمِ غم میں
جیسا کہ یہاں جنگل و کہسار بہت ہیں
لمحوں کی نیلامی
ہاتھوں میں جام
اور ہوش کی بات کریں
ارے کچھ تو
ہوش کی بات کر ساقی
پیمانہ بھی نہ چھلکے
اور سرور چڑھے
زعفرانی کلام
شاعر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈنا چاہیں
وہ پچھلے پہر فکر کی دلدل میں ملے گا
اور صبح کو آئینہ لیے سامنے اپنے
اشعار تغزل کے ریہرسل میں ملے گا
دن کو وہ جگر گوشۂ بیکاری و افلاس
بستر پہ خیالات کے جنگل میں ملے گا
آج رُسوا ہیں تو ہم کُوچہ و بازار بہت
یا کبھی گیت بھی گاتے تھے سر دار بہت
اپنے حالات کو سُلجھاؤ تو کچھ بات بنے
مل بھی جائیں گے کبھی گیسوئے خمدار بہت
دل کے زخموں کو بھی ممکن ہو تو دیکھو ورنہ
چاند سے چہرے بہت پُھول سے رُخسار بہت
سنو جاناں غم دنیا کی کثرت ہے یہاں پر
تمہیں میری مجھے تیری ضرورت ہے یہاں پر
ہمارے دل میں رہ سکتی ہو شہزادی کی صورت
ازل سے حسن والوں کی حکومت ہے یہاں پر
وہاں تم شہر کی گلیوں میں نیندوں کو سمیٹو
مِرا ہر خواب زندہ ہے سلامت ہے یہاں پر
ہے شام بھی یہ آخری دل بھی دُکھا ہُوا
غم بھی گِھسا پِٹا ہے، سُنایا سُنا ہوا
اس عشق وِشق میں نہیں کچھ بھی رکھا ہوا
سمجھاؤں گا جو مجھ سے مِرا رابطہ ہوا
صحرا کی خاک چھاننے نکلے تو کس طرح
گھر کے معاملات میں عاشق پھنسا ہوا
نازشِ علم و ہنر تیری فضاؤں کو سلام
تیرے لطفِ خاص، تیری اداؤں کو سلام
درس گاہِ قوم و ملت اے محبت کے شجر
تیری پرچھائیں سے چمکے کتنے ہی شمس و قمر
علم گاہ نامیہ کس درجہ رخشندہ ہے تو
حال اور ماضی کا سنگم، خواب آئندہ ہے تو
موسم ہجر ہے وحشت ہے رُسوائی ہے
پھر تِری یاد ہے، شام ہے، تنہائی ہے
اک آفتابِ محبت پہ ابر آیا ہے
وصل کی شب ہے سحر کی انگڑائی ہے
دل شکستہ ہے کوچۂ جاناں میں مقید
ہے یہ محبت کا جنوں یا پسپائی ہے؟
چشمِ عشاق میں نمناکئ وحشت رہ جائے
جاں چلی جائے مگر عشق سے نسبت رہ جائے
خوابِ آوارہ کی تکمیل تو ہو گی لیکن
کہیں ایسا نہ ہو پھر وا درِ ہجرت رہ جائے
ہم سے سرزد ہو اچانک کوئی ایسی غلطی
لڑکھڑا جائیں قدم تھوڑی مسافت رہ جائے
ہزاروں تہمتیں دھر لو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا
جو کہنا ہے تم ہی کہہ دو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا
ہماری خامشی کو اپنے مطلب کے معانی دو
بھلے انجام کچھ بھی ہو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا
زمانے کی کہانی میں کئی پنے ہیں، جن بابت
نہیں سننا ہے کچھ تم کو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا
زعفرانی کلام
عام تو نہیں ہوتا مرحلہ محبت کا
کر لیا یے کیسے پھر فیصلہ محبت کا
ہر طرف بپا ہے آج شور اس کے آنے کا
ہھر سے جُڑنے والا یے سلسلہ محبت کا
اک بہو کے آنے سے انقلاب آیا ہے
بٹ گیا ہے بیٹے کا دائرہ محبت کا
زعفرانی غزل
جب میں اس کی گلی سے آیا تھا
مجھ کو کتے نے کاٹ کھایا تھا
کیسے قاضی سے ہو گلہ شکوہ
آشیاں خود ہی جب جلایا تھا
رات بیگم نے کہہ دیا؛ گھامڑ
زیرِ لب میں بھی مسکرایا تھا
زعفرانی غزل
پن کھلا، ٹائی کھُلی، بکلس کھُلے، کالر کھُلا
کھُلتے کھُلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھُلا
آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی، آٹھ دس کا سر کھُلا
تو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھُلا
سچ ہے مغرب اور مشرق ایک ہو سکتے نہیں
اس طرف بیوی کھُلی ہے اس طرف شوہر کھُلا
طنزیہ نمکین زعفرانی کلام
بیٹھے بٹھائے اک دن بس لے لیا تھا پنگا
گنجے سے مانگا کنگا پھر تھا ذرا میں کھنگا
اب تو اکیلے ہی وہ ہے برتھ ڈے منائے
تحفے میں اس کو سب ہی دیتے ہیں جب سے کنگا
نیکر پہن لو سر پہ،۔ گر پاس ہو نہ ٹوپی
پِھرتے ہو عورتوں میں سر لے کے اپنا ننگا
زعفرانی غزل
منکہ ایک منسٹر ہوں
مرغیوں پر بھی کر سکتا ہوں اظہارِ خیال
اورسانڈوں پر بھی ہوں محفل میں سرگرمِ مقال
ریس کے گھوڑوں پہ بھی تقریر کر سکتا ہوں میں
اکبر و اقبال کی تفسیر کر سکتا ہوں میں
ہومیوپیتھک ہو یا دندان سازی کا کمال
باغبانی ہو کہ ہو رومی و رازی کا کمال
کوفہ کا لوہار
میں کوفہ کی بستی کا ادنیٰ لوہار
بہت محنتی کم عبادت گزار
بناتا جو تلوار و تیر و سناں
بہت داد دیتا تھا مجھ کو جہاں
بناتا تھا میں ایسے تیر و تبر
بس اک ضرب میں ڈھیر ہوتا بشر
وہ جو دن رات یوں بھٹکتا ہے
جانے کس کی تلاش کرتا ہے
دل بھی اس کا ہے جگنوؤں جیسا
شام کے وقت جلتا بجھتا ہے
سامنے بیٹھا ہے مگر پھر بھی
لب ہے خاموش، کچھ نہ کہتا ہے
میرا والد (اپنے والدِ محترم کے لیے ہدیۂ عقیدت)
مِرا من جو پُھولوں کی طرح کِھلا ہے
مجھے یہ مِرے باپ سے ہی مِلا ہے
لحد میں بھی سُنتا ہے میری فُغاں کو
مِرا باپ اب بھی مِری مانتا ہے
مجھے مُشکلوں میں یہی لگ رہا ہے
کہ اب بھی وہ میرا ہی مُشکل کشا ہے
گر جو ممکن ہو تو اتنا تو گوارا کیجیے
بہت رہ لیے اپنے اب خود کو ہمارا کیجیے
کہو تو جاں کی بازی بھی لگا ڈالیں ہم
پیار سے اک بار ذرا ہم کو اشارہ کیجیے
نظر التفات پڑ گئی تھی اک بار جو غلطی سے
گزارش ہے وہی غلطی دوبارہ کیجیے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے
تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں ابھی تک دودھ باقی ہے
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
آ اے خیال پھر مِری آنکھوں کو خواب دے
جس پر سکوں نثار ہو، وہ اضطراب دے
میں تجھ کو کچھ نہ کہہ کے پشیمان تو نہیں
صُورت نہ پڑھ سکے جو اسے کیا کتاب دے
خاموشیوں کی تہہ میں سمندر ہے موجزن
اللہ! وسعتوں کو مِری کچھ حجاب دے
ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں
یہ پھول خوشبو کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں
ہمیں بھی رخصت کی رسم کچھ تو نباہنا تھی
تمہاری آنکھوں میں آئے پانی سے ڈر گئے ہیں
یہ تیر جتنے فضا میں آ کر ٹھہر گئے ہیں
کسی پرندے کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں
طلبِ شفا کا تم کو سلیقہ نہیں کوئی
دیوارِ گِریہ ہے یہ مسیحا نہیں کوئی
رستے کے انتخاب میں دونوں اسیر ہیں
گاڑی کے ایک بیل کی منشا نہیں کوئی
تنہائیوں کا بھوت ہمیشہ ہے ساتھ ساتھ
یعنی کہ اس جہان میں تنہا نہیں کوئی
ضروری کام تھا، کرنا بہت ضروری تھا
کسی کے دل میں اُترنا بہت ضروری تھا
لُبِ لُباب کہانی کا تھا مِرا کردار
پر اُس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا
وگرنہ، سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے
بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا
چُھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا
مِلے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا
چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر، بتاؤ مجھے
ان آنسوؤں نے مِری آبرو بچا لی کیا؟
یہ دھڑکنیں ہیں علامت، چُھپا ہوا تو نہیں
نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا
مغرب سے مشرق تک
مغرب اور مشرق دونوں
اک جیسے کی ضد ہوں جیسے
ان ملکوں میں سرحدیں تو ہوتی ہیں
پر آنے جانے کی دشواری کب ہوتی ہے
اور اک ہم یہ مشرق والے
جہاں جہاں سرحد آتی ہے
جو میرا ہوتا تھا پہلے اب اُس کا ہو رہا ہے
مجھے سمجھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے
تیرے جانے نے دُنیاؤں کی ترتیبیں اُلٹ دیں
میرا جو زخم بھرنا تھا، وہ گہرا ہو رہا ہے
سمندر میں اُداسی کس طرف سے آ رہی ہے
یہ اتنا تھا نہیں اب جتنا گہرا ہو رہا ہے
سو جائیے حضور کہ اب رات ہو گئی
جو بات ہونے والی تھی وہ بات ہو گئی
اب کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا
بس اتنا کافی ہے کہ ملاقات ہو گئی
تھوڑی سی دیر اس میں ہوئی تو ضرور ہے
لیکن قبول اپنی مناجات ہو گئی
تیرے ظلم و جور کا روشن نشاں رہنے دیا
آفتابِ داغِ دل اے آسماں، رہنے دیا
ذبح ہونے کی تمنّا کھینچ لائی تھی مجھے
یہ قیامت کی کہ میرا امتحاں رہنے دیا
دل کی بیتابی کا قصہ خط میں ان کو لکھ دیا
صرف حالات شبِ غم کا بیاں رہنے دیا
ہم سے وطن کی آن ہے
ہم سے وطن کی آن ہے، عظمت ہے دوستو
ان بازوؤں میں قوم کی طاقت ہے دوستو
ہم سر زمینِ پاک کی حُرمت کے آفتاب
ہم گُلشنِ وطن کے مہکتے ہوئے گُلاب
ہر سانس روشنی کی علامت ہے دوستو
ہم سے وطن کی آن ہے، عظمت ہے دوستو
زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں
زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں اک ڈگر پر مسلسل روان
اک سٹیشن پر کچھ چاہنے والوں سے
مختصر سی ملاقات کے بعد پھر چل پڑے
آنکھ میں پل کوئی بھی ٹھہرتا نہیں
تیز رفتار ہیں بھاگتے دوڑتے سب مناظر یہاں
پھر صدا آ رہی ہے
باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے
جو نہ کرنا تھا ہمیں وہ کام ہم کرتے رہے
ضبط کر سکتے تھے آخر ضبط ہم کرتے رہے
کام تھا جن کا ستم کرنا، ستم کرتے رہے
زندگی بھر مسکرائے بے سبب ہم دوستو
زندگی بھر زیست کی تلخی کو کم کرتے رہے
پرونیٹ؛ ۔۔۔۔ بریکنگ نیوز
سرسوں کے کھیتوں پر سوروں کی یلغار جاری ہے
کچی شراب پینے والوں کے بچنے کا کوئی امکان نہیں
ہر نسخہ کیمیا کسی نئے نسخہ کی تیاری ہے
کھیتوں کی بربادی پر کسی کا بھی دھیان نہیں
رات کے پاس بارود اور بیان کا ذخیرہ ہے
روشنی کے بنک میں کچھ پھول ہیں اور خاموشی ہے
عالمی زوال کا علاج
ترقی کے اس طوفان میں
عمارتیں اونچی اور انسان
چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں
ترقی اس طوفان میں نام بڑے
ویرانی کا پتہ پوچھ رہے ہیں
ترقی کے اس طوفان میں
ماہل اور ملوانی
گنگا پربت کی بیٹی، ملوانی نیلی فام
سنکھ پہاڑ کا اک شہزادہ ماہل تھا جس کا نام
تولی بابا نے دِکھلائی راہ جنوں کی جن کو
کنٹھی بی بی نے مِلوایا دونوں کو اک شام
دونوں کے اندر بھڑکی پھر عشق کی ایسی آگ
اور پھر اک دن دونوں نکلے پینے عشق کا جام
رات کٹ جائے گى سرکار یقیں ہے ہم کو
پهر سحر ہو گى نمودار، یقیں ہے ہم کو
دل میں نفرت کى جو دیوار اُٹھائی اُس نے
ہم گِرا دیں گے وہ دیوار، یقیں ہے ہم کو
رنج مِٹ جائیں گے خوشیوں کا سماں لوٹے گا
پهر زمیں ہو گى یہ گُلزار، یقیں ہے ہم کو
نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے
وہ بھی جُھلس گئے ہیں حوادث کی دُھوپ سے
ہمراہ اجنبی کے بہت دور تک گیا
چہرہ تھا ملتا جلتا ذرا ان کے رُوپ سے
کیسی ہوا یہ آئی گُلستاں سے گرم گرم
کیا پُھول شعلے بن گئے ساون کی دُھوپ سے
آکسیجن بھی ہچکی بھرنے لگتی ہے
جب اک پیڑ پہ آری چلنے لگتی ہے
موٹر وے ہو یا پگڈنڈی، دیکھ کے چل
دُھند میں اکثر سمت بدلنے لگتی ہے
تیرے ہجر کا اندیشہ ایسے جیسے
پٹڑی پر سے ریل اُترنے لگتی ہے
یہ مِرا ظرف کہ کم ظرف کو مشہور کیا
تُو نے اے دل مجھے کس کام پہ مامور کیا
مجھ پہ جب راز کُھلا پارسائی کا اس کی
میں نے پھر اپنی نگاہوں سے اسے دُور کیا
میں نے ہر محفلِ اشعار کو بخشی توصیف
اس نے ہر محفلِ اشعار کو بے نُور کیا
تیری چاہت کا ابھی دل پہ اثر لگتا ہے
لب تِرے سامنے کھولیں، ہمیں ڈر لگتا ہے
ان کی یادوں کو بُھلایا نہیں دل نے اب تک
تازہ تازہ ابھی ہر زخمِ جگر لگتا ہے
ہر گھڑی گرمئ الفت سے ہے سینہ لبریز
دل میں کوئی تو محبت کا شرر لگتا ہے
سنا ہے کہ بہار آ گئى ہے
رات نے نوزائیدہ شگُوفوں کے منہ میں
شبنم کى گُھٹى ڈال دى ہے
بہار جوان کلیوں کے ہونٹوں پر
جیون رس ٹپکانے لگى ہے
درخت سُرخ و گُلابى اور عنابى ہوئے جاتے ہیں
حسرت سے ہم بہ دیدۂ نم دیکھتے رہے
روکے نہ اس نے بڑھتے قدم دیکھتے رہے
لفظوں میں حُسنِ یار سمیٹوں تو کس طرح
حیرت سے مجھ کو لوح و قلم دیکھتے رہے
میرے علاوہ سب کی طرف دیکھتا تھا وہ
محفل میں شوق سے جسے ہم دیکھتے رہے
جو مسندِ دل پر ہو نشیں، ڈھونڈ رہے ہیں
دنیا میں کوئی ایسا حسیں ڈھونڈ رہے ہیں
اِن گھور اندھیروں میں جو ہو چاند سی روشن
ہم لوگ اَزل سے وہ جبیں ڈھونڈ رہے ہیں
بے مُول سی یادوں کے خزانے لئے دل میں
مسمار مکانوں کو مکیں ڈھونڈ رہے ہیں
دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے
غم سی آگ کو ہم نے بادل کر رکھا ہے
جس نے راہ کے پیڑوں کی سب شاخیں کاٹیں
سب نے اسی کے سر پر آنچل کر رکھا ہے
کوئی پہاڑ ہے اپنی ذات کے اندر جس نے
خود ہم سے بھی ہم کو اوجھل کر رکھا ہے
خُدا سے دل ہے بس اتنا دُعا گُزار مِرا
تمہارے چاہنے والوں میں ہو شمار مرا
کھڑے تھے روک کے غم راستہ ہزار مرا
تِری نظر نے نہ گرنے دیا وقار مرا
رہے گا یوں ہی ہمیشہ نہ دل فگار مرا
خدا نے چاہا تو بدلے گا حالِ زار مرا