عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے
اسی لہو میں تمہارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتلِ عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے
ہماری قدر کرو، چودھویں کے چاند ہیں ہم
خود اپنے داغ دکھانے کو روشنی کی ہے
اداسیوں کو حفیظ! آپ اپنے گھر رکھیں
کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے
حفیظ میرٹھی
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے
اسی لہو میں تمہارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتلِ عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے
ہماری قدر کرو، چودھویں کے چاند ہیں ہم
خود اپنے داغ دکھانے کو روشنی کی ہے
اداسیوں کو حفیظ! آپ اپنے گھر رکھیں
کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے
حفیظ میرٹھی
No comments:
Post a Comment