Tuesday 8 July 2014

مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر

مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر
چھیڑ کر پاؤں سے احسان کیا پانی پر
ہو گیا شیخ کی مہمان نوازی کا شکار
اکتفا رِند🍷 کو کرنا ہی پڑا پانی پر
لیجیے مل گئی بے چارے غریبوں کو دوا
پڑھ کے اک شخص نے کچھ پھونک دیا پانی پر
کتنے پانی میں ہوں میں جان گیا یہ پانی
اک جھجک نے ہی بھرم کھول دیا پانی پر
جھیل میں ڈوب گیا جان سے بیزار بدن
تیرتا رہ گیا مٹی کا گھڑا پانی پر 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment