دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہو گا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہو گا
ہمارا کیا، ہمیں تو ڈوبنا ہے، ڈوب جائیں گے
مگر، طوفان جا پہنچا لبِ ساحل تو کیا ہو گا
زرابِ ناب ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں انساں کے
خِرف کی رہبری نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں
جنوں ہو جائے گا جب رہبرِ منزل تو کیا ہو گا
کوئی پوچھے تو ساحل پر بھروسا کرنے والوں سے
اگر طوفاں کی زد میں آ گیا ساحل تو کیا ہو گا
خود اس کی زندگی اب اس سے برہم ہوتی جاتی ہے
انہیں ہو گا بھی پاسِ خاطرِ قابلؔ تو کیا ہو گا
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment