Saturday, 19 July 2014

ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں

ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں، اک نہاں رکھتا ہوں میں
اے پرستارانِ نغمہ! چھوڑ کر تارِ 🎸 رباب
آج کچھ دُکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
ہائے رے نیرنگیاں ہوں تو چراغ اب بھی، مگر
روشنی رکھتا تھا پہلے اب دھواں رکھتا ہوں میں
آج تک گزری اجل کی آرزو میں زندگی
زندگی سے آج بھی دلچسپیاں رکھتا ہوں میں
مجھ سے کب ہوتی بھلا پابندئ رسمِ وجود
انکی دلداری کی خاطر جسم و جاں رکھتا ہوں میں
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیاں و گلستاں
آدمی ہوں عزمِ تعمیرِ جہاں رکھتا ہوں میں
اب بھی وہ اپنا سمجھ کر مجھ کو اپنا لیں حفیظؔ
کون جانے ورنہ پھر یہ سر کہاں رکھتا ہوں میں 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment