Monday 28 July 2014

کس کی آنکھوں کا لئے دل پہ اثر جاتے ہیں

کس کی آنکھوں کا لیے دِل پہ اثر جاتے ہیں
 مۓ کدے ہاتھ بڑھاتے ہیں، جدھر جاتے ہیں
دل میں ارمانِ وصال، آنکھ میں طوفانِ جمال
ہوش باقی نہیں جانے کا، مگر جاتے ہیں
 بھولتی ہی نہیں دل کو تِری مستانہ نگاہ
ساتھ جاتا ہے یہ مۓ خانہ جدھر جاتے ہیں
پاسبانانِ حیا کیا ہوئے، اے دولتِ حسن
ہم چرا کر تِری دزدیدہ نظر جاتے ہیں
پرسشِ دِل تو کجا یہ بھی نہ پوچھا اس نے
 ہم مسافر کِدھر آئے تھے، کِدھر جاتے ہیں
چشمِ حیراں میں سمائے ہیں، یہ کِس کےجلوے
طُور ہر گام پہ رقصاں ہیں جدھر جاتے ہیں
جِس طرح بھولے مسافر کوئی ساماں اپنا
ہم یہاں بھول کے دل اور نظر جاتے ہیں
کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
 راہ میں چھین کے دل، کہتے ہیں گھر جاتے ہیں
اگلے وقتوں میں لٹا کرتے تھے رہرو اکثر
ہم تو اِس عہد میں بھی لٹ کے مگر جاتے ہیں
فیض آباد سے، پہنچا ہمیں یہ فیض، اخترؔ
کہ جگر پر لیے، ہم داغِ جگر جاتے ہیں

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment