Saturday 12 July 2014

ہر ایک بات پہ تلوار کھینچتا کیوں ہے

ہر ایک بات پہ تلوار کھینچتا کیوں ہے
تُو میرے سر سے یہ دستار کھینچتا کیوں ہے
تُو صاف کیوں نہیں کہتا، کہ چھوڑ جا مجھ کو
قدم قدم پہ یہ دیوار کھینچتا کیوں ہے
میں وه نہیں ہوں جو دنیا سمجھ رہی ہے مجھے
میں وه نہیں ہوں تو انکار کھینچتا کیوں ہے
کوئی طلب، نہ تعلق ہے، نہ کوئی رشتہ
تو پهر بتاؤ مجھے یار کھینچتا کیوں ہے
بلا رہا ہے ادھر دشت سے کوئی مجھ کو
ادھر یہ مصر کا بازار کھینچتا کیوں ہے
میں کوئی میثمِ تمار تو نہیں میثمؔ
مرا جنون سرِ دار کھینچتا کیوں ہے

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment