Thursday 24 July 2014

ہوا کی لہر کوئی چھو کے میرے یار سے آئی

ہوا کی لہر کوئی چُھو کے میرے یار سے آئی 
کوئی تازہ خبر یوں بھی سمندر پار سے آئی
لبوں سے کم اور آنکھوں سے بہت کرتا ہے وہ باتیں
بلاغت اس میں یہ پابندئ اظہار سے آئی 
وہ اس کی گفتگو، کلیاں چٹکنے کی صدا جیسے
یہ نرمی اس کے لہجے میں ہمارے پیار سے آئی 
کشش رکھتا نہیں اب پھول میرے واسطے کوئی
کہ مجھ تک ہر مہک اس زلفِ خوشبودار سے آئی
یہاں ہے جو بھی یوسفؑ، خود زلیخاؤں کا گاہک ہے
روایت یہ نئی کیا جانے کس بازار سے آئی
وہ اک مغرور سی لڑکی، خوشی جس کا تخلص ہے
مرے پاس آ گئی لیکن بڑے اصرار سے آئی 
اندھیروں نے قتیلؔ اکثر اسی دیوار سے جھانکا
اُتر کر دھوپ میرے گھر میں جس دیوار سے آئی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment