Monday 7 July 2014

اس دور بے ضمیر میں جینا سکھا دیا

اس دورِ بے ضمیر میں جینا سکھا دیا
حالات نے ہمیں بھی منافق بنا دیا
جب اس نے میرے فن کا مجھے واسطہ دیا
اک نام اپنی نظم سے میں نے ہٹا دیا
جینے ہی دے مجھے نہ وہ مرنے ہی دے مجھے
خنجر چلا دیا، کبھی مرہم لگا دیا
پھر داغدار ہو گیا دامانِ گلستاں
لو آج پھر کسی نے نشیمن جلا دیا
دیتے پھرو ثبوتِ وفا اب جہاں تہاں
الزام بے وفائی کا اُس نے لگا دیا
ہتھیار پہلے عقل نے ڈھالے نئے نئے
دنیا کو پھر جنوں کا نشانہ بنا دیا
چنگاریوں کو اب کوئی پاگل ہوا نہ دے
شعلہ تو جیسے ہو سکا ہم نے بُجھا دیا
معیارِ زندگی کو اٹھانے کے شوق نے
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرا دیا
یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا، دنیا کو کیا دیا
بربادیوں سے لینا ہے کچھ کام اے حفیظ
یوں مرثیے کو ہم نے ترانہ بنا دیا 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment