Thursday 24 July 2014

اپنے لبوں کو دشمن اظہار مت بنا

اپنے لبوں کو دشمنِ اظہار مت بنا
سچے ہیں جو انہی کو گنہگار مت بنا
دل کو دبا دبا کے نہ رکھ دھڑکنوں تلے
بے چینیوں کے لطف کو آزار مت بنا
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا
ترکِ وفا کا جرم نہ مانے گا تُو نہ میں
اِس مسئلے کو باعثِ تکرار مت بنا
الزام کچھ تو گردشِ ایام کو بھی دے
اپنے ہر ایک غم کو غمِ یار مت بنا
آ میرے بازوؤں میں کہ ساحل پہ جا لگیں
اِس موج موج وقت کو منجھدار مت بنا
تیرا یہ ضبط، اور وہ شعلہ سا آدمی
سورج کے آگے موم کی دیوار مت بنا
شاید وہ تیرے منہ پہ ہی سچ بولنے لگیں
چہرے کو آئینے کا پرستار مت بنا
ہر ایک کے لئے نہ کھلا رکھ اسے قتیلؔ
یہ دل ہے ایک گھر، اسے بازار مت بنا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment