اتنا سا گلہ ہے مجھے اربابِ حرم سے
نفرت وہ کئے جاتے ہیں میرے ہی صنم سے
وہ جب سے گیا، شہر میں ہے قحطِ رقیباں
اس شہر کی رونق تھی اسی شخص کے دم سے
سچ یہ ہے کہ ہم اس سے بچھڑ کر بھی جئیں گے
انجام ہے اس پیار کا اک حرفِ ندامت
آغاز ہوا جس کا ترے قول و قسم سے
لوگ آتے رہے کانچ کا ملبوس پہن کر
افسوس کہ پتھر بھی نہ مارا گیا ہم سے
اللہ ان آنکھوں کو بھی دے ذوقِ سماعت
کاغذ کو بنایا ہے زباں میں نے قلم سے
کی جب سے قتیلؔ اس نے مئے ناب سے توبہ
مے خانے کا مے خانہ ہے ناراض عدمؔ سے
کچھ دن سے قتیلؔ اس کی مجھے آس لگی ہے
اترے جو غزل بن کے مرے ذہن میں چھم سے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment