Thursday 24 July 2014

گزرا ہے بے گانہ بن کر کیسا وہ

گزرا ہے بے گانہ بن کر کیسا وہ
کبھی نہیں تھا آج سے پہلے ایسا وہ
اندر اندر ٹوٹا سا اِک پیمانہ
باہر باہر لال گلابی مئے سا وہ
میں نے جھانک کے دیکھا اُسکی آنکھوں میں 
وہ لگتا ہے جیسا، نہیں تھا ویسا وہ
چوٹ لگی ہے شاید اُس کے بھی دل پر
آج دکھائی دیتا ہے مجھ جیسا وہ
میرا اور اصول ہے، اُس کا اور، قتیلؔ
پیار ہی پیار ہوں میں، پیسا ہی پیسا وہ

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment