Monday, 14 July 2014

کتنے اہل ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے

کتنے اہلِ ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے
آپ کے کوچے سے اٹھنے تھے نہ دیوانے اٹھے
رنج و راحت کا وہ یوں مفہوم سمجھانے اٹھے
راہ میں کانٹے بچھا کر پھول برسانے اٹھے
ظرفِ ساقی ہی نہ جب دیکھا تو پھر کیا بیٹھتے
آنسوؤں سے بھر کے ہم آنکھوں کے پیمانے اٹھے
آج کی بدحال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے
اے مؤرخ! ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے
غمگسار آئیں نہ آئیں، بزم برپا ہو نہ ہو
دل جلوں سے دل جلے کہہ سن کے افسانے اٹھے
اب خدا حافظ متاعِ دین و دانش کا حفیظ
واعظِ کج فہم بھی تقدیر فرمانے اٹھے

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment