Saturday 26 July 2014

یہ مجھ پہ تہمتیں کیسی کہ انحراف کیا

یہ مجھ پہ تہمتیں کیسی کہ انحراف کیا
اے عشق! تجھ سے تو لاکھوں نے اختلاف کیا
نہیں ہے میری ہتھیلی میں زندگی کی لکیر
کل ایک جوتشی نے مجھ پہ انکشاف کیا
مٹا دی اس نے مِری آخری گواہی بھی
بڑی صفائی سے قاتل نے خون صاف کیا
جا، میری جان کے دشمن! تِرا خدا خافظ
جا، میری جان کے دشمن! تجھے معاف کیا
تمہارے وصل کے لمحے ملے تو عید ہوئی
تمہارے ہجر کے موسم میں اعتکاف کیا
یہ میرے یار ہی بدظن ہیں مجھ سے ورنہ تو
مِرے خلوص کا دشمن نے اعتراف کیا
میں جب بھی ڈٹ گیا ظالم کے سامنے عدنانؔ
تمام شہر نے آ کر مِرا طواف کیا

عدنانؔ راجا

No comments:

Post a Comment