Sunday 13 July 2014

سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح

سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح
روشنی کب تھی اتنی مِرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح
داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
زندگی اب ہماری خطا بخش دے
دوست ملنے لگے محسنوں کی طرح
کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
گفتگو، مشورے، سازشوں کی طرح
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment