کیا کچھ ہونے والا ہے، یہ تم کو نہیں اندازہ
شہر کے لوگو! کھلا نہ رکھنا کوئی بھی دروازہ
جس کے ہاتھ میں خنجر ہو گا وہی بنے گا منصف
یوں ہم اپنی فریادوں کا بھگتیں گے خمیازہ
سو سو بار یہاں سب کو مصلوب کیا جائے گا
پہنائیں گے مُلّا قاضی اسے زنجیریں
جس کے تن پر زخم نظر آئے گا تازہ تازہ
سات سمندر پار کے عاشق پیار کریں گے ان کو
چہروں پر جو ملیں گے تیرے میرے خون کا غازہ
ڈھونڈ نکالو اب کوئی تعبیر سحر سے پہلے
بکھر نہ جائے کہیں تمہارے خوابوں کا شیرازہ
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment