ان جھیل سی نیلی آنکھوں میں، لہرائے کنول کیوں یادوں کے
تُو بیتے دنوں میں قید ہے کیوں، یہ کام نہیں آزادوں کے
کس خواب کے پیچھے بھاگی تُو، کس نگری میں برباد ہوئی
جو توڑ گئے ہیں دل تیرا، کیا نام تھے ان شہزادوں کے
بے موسم تیرے آنگن میں، برسات کا موسم کیوں آیا
جو ہونا تھا سو ہو بھی چکا، گزری ہوئی کل کو بھول بھی جا
چھٹ جائیں گے آہوں کے بادل، کٹ جائیں گے دن فریادوں کے
تُو روشنیوں کی آس لیے، اس بار سمندر پار نہ جا
اپنی ہی تِری اس دھرتی سے، اُبھریں گے چاند مرادوں کے
سو بار قتیلؔ محبت سے، تکتے ہیں در و دیوار ہمیں
ہم سے ہے نکھار مکانوں کا، ہم پتھر ہیں بنیادوں کے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment