Friday 18 July 2014

فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے

فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
ایک پر پیچ غنا، ایک حریری نغمہ
ہاۓ وہ حسن کہ جنگل کی صدا ہو جیسے
عشق یوں وادئ ہجراں میں ہوا محوِ خرام
خار زاروں میں کوئی آبلہ پا ہو جیسے
عارضوں پر وہ تِرے تابش پیمان وفا
چاندنی رات کے چہرے پہ حیا ہو جیسے
اس طرح داغ دمکتے ہیں دلِ وحشی پر
قیس کے جسم پہ پھولوں کی عبا ہو جیسے
کتنا دلکش ہے تِری یاد کا پالا ہوا اشک
سینۂ خاک پہ مہتاب گِرا ہو جیسے
رتجگے، وہ بھی نشاطِ غمِ محبوب کے ساتھ
حسن والوں نے بڑا کام کیا ہو جیسے
ہجر کی رات عجب رنگ ہے پیمانے کا
دستِ مے خوار میں بجھتا سا دِیا ہو جیسے
خاکِ دل پر تِرے سیال تصور کا خرام
ریگِ صحرا پہ رواں بادِ صبا ہو جیسے
آج اس شوخ کا چِتون کا یہ عالم ہے ظہیرؔ
حسن اپنی ہی اداؤں سے خفا ہو جیسے

ظہیر کاشمیری​

No comments:

Post a Comment