لے گیا اپنی سب ریکھائیں اپنے ساتھ
دروازے پر دستک دینے والا ہاتھ
آپ سنبھل جائے گا ٹھوکر کھانے پر
دِل کو میں سمجھاؤں، میری کیا اوقات
یاد نہ وہ آئے تو آنکھیں کیا برسیں
حرف لکھے تھے جتنے وہ سب پھیل گئے
کاغذ کے دشمن ہوتے ہیں گِیلے ہاتھ
مستقبل تو مستقبل ہی رہتا ہے
یوں لگتا ہے کبھی نہ بدلیں گے حالات
تھا مجھ پر بھی تنگ مِرا گھر، اس پر بھی
تنہائی نے رہنا چاہا میرے ساتھ
میں نے تو دو چار الزام خریدے تھے
دِل کے شہر سے تم کیا لائے ہو سوغات
ساری رات مسلسل جاگنے والے نے
آنکھوں میں کچھ خواب سجائے پچھلی رات
یہ قصہ اپنی تاریخ کا حصہ ہے
کھا گئے ہاتھی چند ابابیلوں سے مات
مانگے سے گر ملے قتیلؔ محبت بھی
ایک طرح سے ہوتی ہے وہ بھی خیرات
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment