Thursday 24 July 2014

لے گیا اپنی سب ریکھائیں اپنے ساتھ

لے گیا اپنی سب ریکھائیں اپنے ساتھ
دروازے پر دستک دینے والا ہاتھ
آپ سنبھل جائے گا ٹھوکر کھانے پر
دِل کو میں سمجھاؤں، میری کیا اوقات 
یاد نہ وہ آئے تو آنکھیں کیا برسیں
جب چھائے گا بادل تب ہو گی برسات
حرف لکھے تھے جتنے وہ سب پھیل گئے
کاغذ کے دشمن ہوتے ہیں گِیلے ہاتھ
مستقبل تو مستقبل ہی رہتا ہے
یوں لگتا ہے کبھی نہ بدلیں گے حالات
تھا مجھ پر بھی تنگ مِرا گھر، اس پر بھی
تنہائی نے رہنا چاہا میرے ساتھ
میں نے تو دو چار الزام خریدے تھے
دِل کے شہر سے تم کیا لائے ہو سوغات
ساری رات مسلسل جاگنے والے نے
آنکھوں میں کچھ خواب سجائے پچھلی رات
یہ قصہ اپنی تاریخ کا حصہ ہے
کھا گئے ہاتھی چند ابابیلوں سے مات
مانگے سے گر ملے قتیلؔ محبت بھی
ایک طرح سے ہوتی ہے وہ بھی خیرات

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment