Friday 18 July 2014

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا، ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
تخیّل کی حدوں کا یقیں نہ کر سکا
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثال دست تہِ سنگ رہ گیا
ہم انکی بزمِ ناز میں کیوں چپ ہوۓ ظہیرؔ
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا

ظہیر کاشمیری​

No comments:

Post a Comment