جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے
ورنہ، ہر دروازے پر تقدیر بھلا کب رکتی ہے
میری گلی کے لٹنے والے شور مچاتے ہیں لیکن
تب امداد پہنچتی ہے جب بربادی ہو چکتی ہے
ساون تو ہے ایک مگر کیا کہیے اس دو رنگی کو
کبھی نہ دیکھی کسی نے اب تک نرمی بانجھ درختوں میں
جس ڈالی پر پھل آ جائے صرف وہ ڈالی جھکتی ہے
ایک ہی وہ بازار تھا جس میں یوسفؑ بیچا گیا قتیلؔ
اپنے ہر بازار میں اب انسان کی قیمت چُکتی ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment