Friday 25 July 2014

جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے

جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے
ورنہ، ہر دروازے پر تقدیر بھلا کب رکتی ہے
میری گلی کے لٹنے والے شور مچاتے ہیں لیکن
تب امداد پہنچتی ہے جب بربادی ہو چکتی ہے
ساون تو ہے ایک مگر کیا کہیے اس دو رنگی کو
باہر پڑے پھوار تو اندر جان ہماری پُھکتی ہے
کبھی نہ دیکھی کسی نے اب تک نرمی بانجھ درختوں میں
جس ڈالی پر پھل آ جائے صرف وہ ڈالی جھکتی ہے
ایک ہی وہ بازار تھا جس میں یوسفؑ بیچا گیا قتیلؔ
اپنے ہر بازار میں اب انسان کی قیمت چُکتی ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment