پسِ زندان، سرِ راہ گزر آتے ہیں
ہم کو ہر حال میں جینے کے ہنر آتے ہیں
لوگ پتھر لیے ہاتھوں میں لپکتے ہیں ادھر
جب کسی پیڑ پہ دو چار ثمر آتے ہیں
میں حقیقت کی حقیقت کو سمجھتا ہوں، مگر
لوگ ویسے بھی نہیں، جیسے نظر آتے ہیں
زندگی تجھ سے بھلا کیسے مفر ہو گا کہ ہم
صحنِ مقتل میں بھی آئیں تو نڈر آتے ہیں
منزلیں عشق کی یونہی تو نہیں مل جاتیں
ہم سفر! کیا تجھے آدابِ سفر آتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ یہاں جرم ہے سچ بولنا بھی
جس پہ، احباب عداوت پہ اتر آتے ہیں
ہم کو ہر حال میں جینے کے ہنر آتے ہیں
لوگ پتھر لیے ہاتھوں میں لپکتے ہیں ادھر
جب کسی پیڑ پہ دو چار ثمر آتے ہیں
میں حقیقت کی حقیقت کو سمجھتا ہوں، مگر
لوگ ویسے بھی نہیں، جیسے نظر آتے ہیں
زندگی تجھ سے بھلا کیسے مفر ہو گا کہ ہم
صحنِ مقتل میں بھی آئیں تو نڈر آتے ہیں
منزلیں عشق کی یونہی تو نہیں مل جاتیں
ہم سفر! کیا تجھے آدابِ سفر آتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ یہاں جرم ہے سچ بولنا بھی
جس پہ، احباب عداوت پہ اتر آتے ہیں
عدنانؔ راجا
No comments:
Post a Comment