Tuesday 8 July 2014

بزم تکلفات سجانے میں رہ گیا

بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
تاثیر کے لیے جہاں تحریف کی گئی
اک جھول بس وہیں پہ فسانے میں رہ گیا
سب مجھ پہ مہرِ جرم لگاتے چلے گئے
میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا
خود حادثہ بھی موت پہ اس کی تھا دم بخود
وہ دوسروں کی جان بچانے میں رہ گیا
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہمسفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
میدانِ کارزار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا
وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
بازارِ زندگی سے قضا لے گئی مجھے
یہ دور میرے دام لگانے میں رہ گیا
یہ بھی ہے ایک کارِ نمایاں حفیظ کا
کیا سادہ لوح کیسے زمانے میں رہ گیا 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment