Saturday 12 July 2014

خیال و خواب سے باب یقیں تک آیا ہوں

خیال و خواب سے بابِ یقیں تک آیا ہوں
میں ایک لمبے سفر میں زمیں تک آیا ہوں
یہ آسمان مرے سامنے بنے ہوئے ہیں
میں پہلے بھی ترے عرشِ بریں تک آیا ہوں
اے بد قماش زمانے! مجھے فریب نہ دے
میں سر اٹھائے محبت کے دِیں تک آیا ہوں
جہاں وه شخص اچانک بچھڑ گیا مجھ سے
میں اپنے خواب اٹھانے وہیں تک آیا ہوں
بہت کٹھن تھا ترے انحراف کا رستہ
میں اپنے آپ سے لڑتا نہیں تک آیا ہوں

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment