Monday 7 July 2014

بے سہاروں کا انتظام کرو

بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتلِ عام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو! جاؤ اپنا کام کرو
سر پھروں میں ابھی حرارت ہے
ان جیالوں کا احترام کرو
خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
خواہشوں کو نہ بے لگام کرو
سیزبانوں میں جو جہاں ان بن
ایسی بستی میں مت قیام کرو
آپ چھٹ جائیں گے ہوس والے
تم ذرا بے رخی کو عام کرو
ڈھونڈتے ہو گروں پڑوں کو کیوں
اڑنے والوں کو زیرِ دام کرو
دینے والا بڑائی بھی دے گا
تم سمائی کا اہتمام کرو
بددعا دے کے چل دیا وہ فقیر
کہہ دیا تھا کہ کوئی کام کرو
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھک کر کسے سلام کرو
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظ
آستینوں کا انتظام کرو 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment