Friday 25 July 2014

یارو کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں

یارو! کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلا گیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے ہاتھ بھی اپنا جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کر رہا ہے وہ
اے زندگی! خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہدِ فراق! آ, کہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے تنہا تُو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سرِ محضر لگاؤں میں
اُترا ہے بام سے کوئی الہام کی طرح
جی چاہتا ہے ساری زمین کو سجاؤں میں
اُس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اُسے قتیلؔ گلے سے لگاؤں میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment