Sunday 6 July 2014

ترے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں

تِرے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں 
نگاہِ ناز کے احسان اٹھائے پھرتے ہیں 
کسی کی زُلف پریشان، کسی کا دامن چاک 
جنون کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں 
قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے 
تجھ ہی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں 
تمہیں خبر بھی ہے یارو! کہ دشتِ غربت میں 
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں 
نئی سحر کے اجالے بھی اجنبی نکلے
نگاہِ شوق سے دامن بچائے پھرتے ہیں 
فراقِ دوست سلامت کہ اہلِ دل قابلؔ 
نفس نفس کو زمانہ بنائے پھرتے ہیں

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment