Thursday 24 July 2014

کچھ راحتوں کی کھوج میں آئی تھی زندگی

کچھ راحتوں کی کھوج میں آئی تھی زندگی
دیکھا تو اِک لحد میں سمائی تھی زندگی
کیا کیا نہ ایک شخص نے رکھی سنبھال کر
معلوم اب ہوا کہ پرائی تھی زندگی
ہو جائے ریزہ ریزہ لگے جب ذرا سی ٹھیس
کیا سوچ کر خدا نے بنائی تھی زندگی
تھا دشمنوں کے واسطے عبرت کا یہ مقام
کاندھے پہ دوستوں نے اُٹھائی تھی زندگی
واپس گئی عدم کی طرف خاک اوڑھ کر
سانسیں پہن کے دہر میں آئی تھی زندگی
اُڑتا ہوا وہ ایک پرندہ ہے اب کہاں
اپنے پروں پہ جس نے سجائی تھی زندگی
دیکھا قمار خانۂ ہستی میں جب قتیلؔ
داؤ پہ ہر بشر نے لگائی تھی زندگی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment