Thursday 10 July 2014

بہار آئے گی اور میں نمو نہیں نہیں کروں گا

بہار آئے گی اور میں نمو نہیں نہیں کروں گا
خزاں کو اب کے برس سرخرو نہیں کروں گا
دکھاؤں گا تِری بے چہرگی تجھے کسی دن
اور آئینہ بھی تِرے رو برو نہیں کروں گا
یہ دودھ کوزۂ آلودہ کے لئے نہیں ہے
میں ہر کسی سے تِری گفتگو نہیں کروں گا
کروں گا میں بھی تِرے ساتھ دشمنی لیکن
تِرے قبیلے کو بے آبرو نہیں کروں گا
مجھے نشان زدہ کوئی شے پسند نہیں
وہ زخم ہو کہ تبسّم، رفو نہیں کروں گا
کروں گا تیری غلامی اس انفراد کے ساتھ
کہ میں نمائشِ طوقِ گلو نہیں کروں گا
مجھے چراغِ خموشی جلانا آتا ہے
میں روشنی کے لیے ہا و ہو نہیں کروں گا
یہی وہ شے ہے جسے خود فریبی کہتے ہیں
یہ آرزو کہ تِری آرزو نہیں کروں گا
گلِ دریدہ نما خوشبوئے پریدہ نما
سفر کروں گا تِری جستجو نہیں کروں گا
میں جڑ کی طرح پسِ سایہ و ثمر شاہدؔ
نمود و نام کی خاطر نمو نہیں کروں گا 

شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment