Friday, 4 July 2014

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگر، چراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی ​
مری شکست میں کیا کیا تھے مضمرات نہ پوچھ ​
عدو کا ہاتھ تھا، اور چال آشنا کی تھی ​
فقیہِ شہر نے بے زار کر دیا، ورنہ ​
دلوں میں قدر بہت خانۂ خدا کی تھی​
ابھی سے تم نے دھواں دھار کر دیا ماحول ​
ابھی تو سانس ہی لینے کی ابتدا کی تھی​
شکست وہ تھی، کہ جب میری سربلندی کی​
مرے عدو نے مرے واسطے دعا کی تھی​
اب ہم غبارِ مہ و سال کے لپیٹ میں ہیں ​
ہمارے چہرے پہ رونق کبھی بلا کی تھی

محسن احسان

No comments:

Post a Comment