Friday 18 July 2014

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیار سے پوچھا کرتے ہیں

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیار سے پوچھا کرتے ہیں
یہ سر بہ گریباں دیوانے کس شے کا تقاضا کرتے ہیں
اک دن تھا، کہ ساحل پر بیٹھے طوفاں پہ تبسم کرتے تھے
اب مایوسی کے عالم میں، ساحل کا تماشا کرتے ہیں
خطرہ ہے وفا کے لٹنے کا، مجبورئ دل بھی لازم ہے
جینے کی تمنا کرتے ہیں، مرنے کا تقاضا  کرتے ہیں
معصوم ستمگر کی باتیں، مظلوم ادا کے افسانے
یوں رات بسر ہو جاتی ہے، یوں دل کا مداوا کرتے ہیں
جب نادانی کا عالم تھا حاصل کی تمنا کرتے تھے
اب دل میں آگ لگاتے ہیں  شعلوں کا تماشا کرتے ہیں
اپنے میں رہے تو رسوائی، اپنے سے گئے تو سودائی
ہم مدت سے دیوانگئ دنیا کا تماشا کرتے ہے

ظہیر کاشمیری

No comments:

Post a Comment