سہما سہما سا اک سایہ مہکی مہکی سی اک چاپ
پچھلی رات مرے آنگن میں آ پہنچے وہ اپنے آپ
ذکر کریں وہ اور کسی کا بیچ میں آئے میرا نام
اِن کے ہونٹوں پر ہے اب تک میرے پیار کی گہری چھاپ
اندھیاروں کی دیواروں کو پھاند کے چاند کہاں پہنچا
بات کریں تو رکھ دیتے ہیں لوگ زباں پر انگارے
جھوٹ ہے میرا کہنا تو پھر سچ خود بول کے دیکھ لیں آپ
اونگھنے والوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر نیند چبھے
پیارے ساتھی اس محفل میں کوئی راگ الاپ
جو بھی دیکھے نفرت سے منہ پھیر کے آگے بڑھ جائے
یہ جیون ہے یا رستے میں پڑا ہوا بالک بِن باپ
گلی گلی آوارہ اب تو مارا مارا پھرے قتیلؔ
کہتے ہیں اک دیوی کی آنکھوں نے اس کو دیا سراپ
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment