Thursday 3 July 2014

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا
بات بن آئی ہے پھر سے کہ مِرے بارے میں
اس نے پوچھیں مِرے غمخوار سے باتیں کیا کیا
لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا
کسی سودائی کا قصہ، کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لیے یار سے باتیں کیا کیا
کس کو بِکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اِس حیلے سے
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا
ہم ہیں خاموش کہ مجبورِ محبت تھے فرازؔ
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment