Friday 18 July 2014

ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے

ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے
گلشن کو ہم برنگِ دِگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے
ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے
وہ جُنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھئے
کیا دیکھنا تھا، اپنا جگر دیکھتے رہے
وہ بار بار دل میں جلاتے رہے چراغ
ہم سر جھکائے شمعِ سحر دیکھتے رہے
محسوس ہو رہا تھا کوئی سلسلہ ظہیر
پہروں زمین و راہگزر دیکھتے رہے

ظہیر کاشمیری

No comments:

Post a Comment