Thursday 24 July 2014

جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا

جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسا پلٹ دیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم، کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا
اپنے قریب پا کے معطر سی آہٹیں
میں بارہا سنکتی ہوا سے لپٹ گیا
جو بھی ملا سفر میں کسی پیڑ کے تلے
آسیب بن کے مجھ سے وہ سایا چمٹ گیا
لٹتے ہوئے عوام کے گھر بار دیکھ کر
اے شہریار! تیرا کلیجا نہ پھٹ گیا
رکھے گا خاک ربط وہ اس کائنات سے
جو ذرّہ اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا
چوروں کا احتساب نہ اب تک ہوا قتیلؔ
جو ہاتھ بے قصور تھا وہ ہاتھ کٹ گیا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment