Saturday 19 July 2014

اف رے شکایت جفا واہ رے شکوۂ ستم

اف رے شکایتِ جفا، واہ رے شکوۂ ستم
ہنستے رہے حضور میں، رو دیے دور جا کے ہم
دستِ ہوس میں سیف ہے، جہل کے ہاتھ میں قلم
معرکۂ حیات میں رہ گئے خالی ہاتھ ہم
ہائے یہ کیا مقام ہے، ہائے یہ کیا نظام ہے
عشق کی آستیں بھی نم، حُسن کی آستیں بھی نم
ایسا بھی انقلاب کیا، شیخ! تمہیں یہ کیا ہوا
رُخ تو ہے سُوئے بتکدہ، پُشت ہے جانبِ حرم
شاید اسی طرف سے کچھ ، لطف میں ہو گئی کمی
جانبِ کوئے دوست جو آج نہ اٹھ سکے قدم 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment