Thursday 24 July 2014

تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے

تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے
ستاروں کو سنائی دیر تک اپنی غزل میں نے
وہ تیرے جسم سے چھنتی ہوئی کچھ دِلربا کرنیں
نہ دیکھا تھا کبھی یوں جلوۂ حسنِ ازل میں نے
غموں کی دھوپ جن کے روزنوں سے جھانک سکتی ہے
سجائے تیرے سایوں سے وہ خوابوں کے محل میں نے
نہ ہو گا سو برس کی عمر میں بھی یہ سکوں حاصل
گزارا تجھ سے مل کر جس طرح ایک ایک پل میں نے
خُدارا! تُو بھی اس دیوانگی کی لاج رکھ لینا
اگر ڈالا تری نیندوں میں تھوڑا سا خلل میں نے
یقیناً تجھ کو چاہیں گے میرے غمخوار بن بن کر
سمجھ رکھا ہے اپنا دوست جن کو آج کل میں نے
قتیلؔ اس بار جانے کب مجھے مصلوب ہونا ہے
ابھی دیکھا نہیں حالات کا رد عمل میں نے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment