تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے
ستاروں کو سنائی دیر تک اپنی غزل میں نے
وہ تیرے جسم سے چھنتی ہوئی کچھ دِلربا کرنیں
نہ دیکھا تھا کبھی یوں جلوۂ حسنِ ازل میں نے
غموں کی دھوپ جن کے روزنوں سے جھانک سکتی ہے
نہ ہو گا سو برس کی عمر میں بھی یہ سکوں حاصل
گزارا تجھ سے مل کر جس طرح ایک ایک پل میں نے
خُدارا! تُو بھی اس دیوانگی کی لاج رکھ لینا
اگر ڈالا تری نیندوں میں تھوڑا سا خلل میں نے
یقیناً تجھ کو چاہیں گے میرے غمخوار بن بن کر
سمجھ رکھا ہے اپنا دوست جن کو آج کل میں نے
قتیلؔ اس بار جانے کب مجھے مصلوب ہونا ہے
ابھی دیکھا نہیں حالات کا رد عمل میں نے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment