Thursday 3 July 2014

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے یہ دیوانے آدمی ہیں
غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجیے
یہ دشمنی کریں گے بے گانے آدمی ہیں
جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے
کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں
کیا چور ہیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے
کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں
مے بوند بھر پلا کر کیا ہنس رہا ہے ساقی
بھر بھر کے پیتے آخر پیمانے آدمی ہیں
تم نے ہمارے دل میں گھر کر لیا تو کیا ہے
آباد کرتے آخر ویرانے آدمی ہیں
جب داورِ قیامت پوچھے گا تم پہ رکھ کر
کہ دیں گے صاف ہم تو بے گانے آدمی ہیں
ناصح سے کوئی کہہ دے کیجیے کلام ایسا
حضرت کو تاکہ کوئی یہ جانے آدمی ہیں
میں وہ بشر کہ مجھ سے ہر آدمی کو نفرت
تم شمع وہ کہ تم پر پروانے آدمی ہیں
محفل بھری ہوئی ہے سودائیوں سے اس کی
اس غیرت پری پر دیوانے آدمی ہیں
شاباش داغؔ! تجھ کو کیا تیغِ عشق کھائی
جی کرتے ہیں وہی جو مردانے آدمی ہیں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment