Thursday, 3 July 2014

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے
خدا نگاہ سے اُس کی پناہ میں رکھے
برا ہوں میں تو مجھے رکھیے اپنے پیش نظر
برے کو چاہیے انسان نگاہ میں رکھے
پہنایا ہار گلے کا پھر اس پہ یہ طرہ
کہ پھول غیر کے تم نے کلاہ میں رکھے
جو شیخ دیکھ لے اک بار کیف مے خانہ
تو بھول کر نہ قدم خانقاہ میں رکھے
اُسی سے تو دل بے تاب ٹھیک رہتا ہے
جو تجھ کو باندھ کے زلفِ سیاہ میں رکھے
یہ فقر فاقہ کی خوبی نہیں ہے اے زاہد
کہ تیس روزے اگر ایک ماہ میں رکھے
سر نیاز ہو اس راہ میں قدم فرسا
جبیں سے پاؤں تِری جلوہ گاہ میں رکھے
تلاشِ دیر و حرم میں عبث نہ کیونکر ہو
تِرا ظہور ہی جب اشتباہ میں رکھے
خدا کے عشق میں اے داغؔ بت کی یاد رہے
ثواب ہم نے ملا کر گناہ میں رکھے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment