لباس تن پہ سلامت ہیں، ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملکِ خداداد کے سوالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریاکاریاں سجا لی ہیں
ہمارے دل میں ہیں اب آماجگاہ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشمینوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
ہمارے اہلِ سیاست نے کرسیوں کے لیے
بنامِ خلقِ خدا پگڑیاں اچھالی ہیں
کسی غریب اپاہج فقیر کی محسنؔ
کسی امیر نے بیساکھیاں چرا لی ہیں
ہم ایک ملکِ خداداد کے سوالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریاکاریاں سجا لی ہیں
ہمارے دل میں ہیں اب آماجگاہ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشمینوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
ہمارے اہلِ سیاست نے کرسیوں کے لیے
بنامِ خلقِ خدا پگڑیاں اچھالی ہیں
کسی غریب اپاہج فقیر کی محسنؔ
کسی امیر نے بیساکھیاں چرا لی ہیں
محسن احسان
No comments:
Post a Comment