کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی
اب آدمی کا ٹھکانہ، نہ کائنات کی خیر
سنا ہے اہلِ خِرد ہو گئے ہیں سودائی
ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے
اب اپنے جیب و گریباں کا کیا سوال رہا
جنوں کا ہاتھ بٹانے کو خود بہار آئی
حیات پوچھ رہی تھی سکون کا مفہوم
تڑپ کے دل نے تِرے درد کی قسم کھائی
اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی منزل
وہ عزم جو نہیں محتاجِ ہمت افزائی
مشاعروں میں حفیظ آج کل وہی جائے
کہ جس کو حد سے زیادہ ہو ذوقِ رُسوائی
حفیظ میرٹھی
No comments:
Post a Comment