Thursday 3 July 2014

یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے

یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر درد سے انکار کرے ہے
دنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
اس دشمنِ ایماں نے کیا شیخ پہ جادو
کافر جو کہے ہے وہی دیندار کرے ہے
اب اپنے بھی سائے کا بھروسا نہیں یارو
نزدیک جو آئے ہے وہی وار کرے ہے
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
شرماتا ہوں فنکار سمجھتے ہوئے خود کو
جب جھوٹی خوشامد کوئی فنکار کرے ہے
یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
کیا جانئے کس کرب کا اظہار کرے ہے
مانگے ہے حفیظ اور ہی کچھ شعر کا بازار
کچھ اور طلب شعر کا معیار کرے ہے

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment