Tuesday 8 July 2014

وادئ حسن ہم اس سیر و سفر سے گزرے

وادئ حُسن ہم اس سیر و سفر سے گزرے
دل لرز اٹھا وہ نظارے نظر سے گزرے
راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
اب کوئی قافلہ گزرے تو کدھر سے گزرے
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہگزر سے گزرے
حُسن منزل کی قسم، زندگئ دل کی قسم
رقص کرتے ہوئے ہم برق و شرر سے گزرے
کوئی چپکے سے دِیا دل کا جلا کر سو جائے
کاروانِ مہ و انجم جب ادھر سے گزرے
جانے کیا کہہ گئے ماحول سے، جاتے جاتے
وہ اندھیرے جو ابھی چاکِ سحر سے گزرے 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment