Thursday 10 July 2014

حادثے کے لئے تیار مجھے کرتا ہے

حادثے کے لیے تیار مجھے کرتا ہے
روز اک خواب خبردار مجھے کرتا ہے
یہ تو میں ہوں جو کناروں میں سمٹ جاتا ہوں
تُو سمجھتا ہے کہ تُو پار مجھے کرتا ہے
پہلے میں راستہ ہموار کیا کرتا تھا
اور اب راستہ ہموار مجھے کرتا ہے
قبر بنتی ہوئے دیکھی نہیں جاتی مجھ سے
ایسے جیسے کوئی مسمار مجھے کرتا ہے
دوسروں کے لیے مصروفِ عمل رہتا ہوں
دشت دریا کا طلب گار مجھے کرتا ہے
منتخب تمغۂ جرأت کے لئے ہے وہ بھی
جو مِرے ڈر سے گرفتار مجھے کرتا ہے
اپنی پہچان بناتا ہوا موسم شاہدؔ
زخم دے دے کے ثمردار مجھے کرتا ہے 

شاہد ذکی 

No comments:

Post a Comment