Tuesday, 8 July 2014

نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ

نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ
ہمارا ہی جگر ہے یہ، ہمارا ہی کلیجا ہے
ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخِ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پر وار کرتا ہوں
مِرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ
ہماری بے قراری کو نہ چھیڑو مطمئن لوگو
کہ تقدیرِ سکوں ہے ہم پریشانوں سے وابستہ
کہیں مسلی ہوئی کلیاں، کہیں روندے ہوئے غنچے
بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ
مورخ! تیری رنگ آمیزیاں تو خوب ہیں، لیکن
کہیں تاریخ ہو جائے نہ افسانوں سے وابستہ
ابھی یہ چلتے چلتے دیکھ لیتے ہیں خراشوں کو
ابھی کچھ اور زنجیریں ہیں دیوانوں سے وابستہ
محبت خامشی بھی، چیخ بھی، نغمہ بھی، نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے، کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ، نہ دربانوں سے وابستہ 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment