Monday 7 July 2014

کارواں چاہے مختصر ہو جائے

کارواں چاہے مختصر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
خام اب بھی نہیں ہے عشق، مگر
چوٹ کھا لے تو پختہ تر ہو جائے
بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
تاکہ تسکینِ چارہ گر ہو جائے
اس فریب سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
ہو نہ تقدیر کا اگر قائل
آدمی، آدمی کے سر ہو جائے
دھڑکنیں ہیں اب اہلِ دل کا پیام
سننے والا قریب تر ہو جائے 

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment