کارواں چاہے مختصر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
خام اب بھی نہیں ہے عشق، مگر
چوٹ کھا لے تو پختہ تر ہو جائے
بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
تاکہ تسکینِ چارہ گر ہو جائے
اس فریب سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
ہو نہ تقدیر کا اگر قائل
آدمی، آدمی کے سر ہو جائے
دھڑکنیں ہیں اب اہلِ دل کا پیام
سننے والا قریب تر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
خام اب بھی نہیں ہے عشق، مگر
چوٹ کھا لے تو پختہ تر ہو جائے
بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
تاکہ تسکینِ چارہ گر ہو جائے
اس فریب سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
ہو نہ تقدیر کا اگر قائل
آدمی، آدمی کے سر ہو جائے
دھڑکنیں ہیں اب اہلِ دل کا پیام
سننے والا قریب تر ہو جائے
حفیظ میرٹھی
No comments:
Post a Comment