Monday 28 July 2014

ناحق نہ درد عشق کی ہمدم دوا کریں

ناحق نہ دردِ عشق کی ہمدم دوا کریں
تا حشر یہ خلش نہ مٹے، یہ دعا کریں
شکوے سے کی ہے نامۂ الفت کی ابتدا
جی چاہتا ہے آج پھر ان کو خفا کریں
الزامِ پارسائی نہ آئے شباب میں
جو پارسا ہوں، وہ مِرے حق میں دعا کریں
پچھلا پہر ہے، چاندنی چھٹکی ہے، باغ میں
ایسے میں آپ آ نہیں سکتے ہیں، کیا کریں
وہ کیا ملا کہ دونوں جہاں مل گئے ہمیں
اب اس کی بارگاہ میں ہم کیا دعا کریں
بے تاب ہو کے سامنے آئیں گے خود کبھی
چھپنے کو ہم سے لاکھ ابھی وہ چھپا کریں
اخترؔ نہیں ہے دردِ محبت کا کچھ علاج
ہو کوئی اور درد تو نیر دوا کریں

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment